حضرت خواجہ پیر محمد فاروق رحمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد فاروق رحمانی بن حضرت محمد فرید بن وزیر حسین نے دہلی ( انڈیا) میں ۱۹۰۲ء کو تولد ہوئے۔ آپ کا خاندان عرب شریف سے ہندوستان کے مغل بادشاہ شہاب الدین محمد شاہجہان کی ایماء پر وطن عزیز کو خیر باد کہہ کر ہندوستان میں وارد ہوا۔ آپ کا قبیلہ نہ صرف فن تعمیرات میں ماہر تھا بلکہ خطاطی ، زرگری ، نقشہ نویسی ، شناخت جواہرات ، مصوری مغل آرٹ ، تلوار وزرہ سازی اور پچی کاری و دیگر فنون میں بھی یگانہ روزگار تھا اس لئے مغلیہ عہد حکومت میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ سولہ سال کی عمر میں والدہ کا انتقال ہواپھر کلی طور پر تربیت والدہ کی شفقت کے تحت ہوئی ۔
شادی و اولاد:
۱۹۲۸ء کو چھبیس سال کی عمر میں والدہ ماجد ہ فاطمہ خاتون نے اپنے بھائی شریف اللہ کی دختر نیک اختر امینہ خاتون سے آپ کی شادی کرادی ۔ جن کے بطن سے دو بیٹے اور چھ بیٹیاں تولد ہوئے۔
میاں محمد اقبال رحمانی
میاں محمد ناصر رحمانی
دونوں کراچی صرافہ مارکیٹ میں اعلیٰ پائے کے جوہری اور جیولرز میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ اول ذکر بعد میں سجادہ نشین ہوئے ۔
۔ فیروز ہ بیگم
۴۔ طاہر ہ بیگم
۵۔ فریدہ بیگم
۶۔ ساجدہ بیگم
۷۔ ناصرہ بیگم
۸۔ مسرت بیگم
بیعت و خلافت :
شادی کے دوسال بعد والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تو تنہائی کا احساس ہوا کسی رہبر کامل کی ضرورت محسوس کی اس لئے تلاش مرشد شروع کر رکھی۔ تین سال کے بعد منزل ملی ۱۹۳۸ء کو حضرت شیخ طریقت خواجہ انعام الرحمن قدوسی سہار نپوری ؒ (۱۹۵۴ء ) سے دست بیعت ہوئے۔ حضرت نے آپ کو نسبت چشتیہ صابر یہ اور قادریہ سے سیراب کیا اور بعد میں خلافت سے بھی نواز ے گئے ۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی معلم آپ کی والد ہ ماجدہ ہیں جس کی صحبت میں رہ کر دینی تعلیم و تربیت حاصل کی ۔ آداب زندگی ، صبر ، شکر، درگذر ، توکل اور پرہیز گار جیسی صفات سے متوصف ہوئے۔بچپن سے نماز روزہ کے پابند رہے ۔ والدہ کے انتقال کے بعد مخلوق خدا کو نفع پہچانے کے نقطہ نظر سے علوم نجوم ، ابجدی قمری کے دائرے ، علم بانسہ ، علم ہیئت، علم قیافہ ، علم اسماء ، علم تعبیر رویا سیکھے ۔ علم فقہ حنفیہ، حدیث نبوی ، تفسیر قرآن اور تصوف کے متعلق اردو زبان میں کثرت سے مطالعہ کیا۔ علم جفر اور رمل میں کمال حاصل کیا۔ پھر عملیات کی طرف آئے اور کمال حاصل کیا۔
ذریعہ معاش :
آپ نے پیری مریدی اورتعویذات کو کبھی بھی ذریعہ معاش نہیں بنایا یہ تمام کام اللہ و رسول کی رضا اور خدمت خلق کے جذبہ سے جاری رکھے ۔
دہلی میں آپ کا اپنا کاروبار چاندنی چوک کے موتی بازار کے ایک بالا خانے پر سونے اور جواہرات کا تھا اور کراچی میں بھی یہی کاروبار جاری رکھا۔ جس سے اپنی ذاتی ، گھر والوں اور حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرتے تھے۔
پاکستان آمد :
دہلی سے ملتان جہاز میں آئے اور ایک ماہ قیام کے بعد کراچی تشریف لائے اور ان دنوں رنچھوڑ لائن میں ایک کمرے میں رہائش اختیار کی اور رشد و ہدایت و خدمت خلق کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ نے اپنین حالات زندگی خود قلم بند کئے ہیں اس میں تحریک پاکستان کے دور میں دہلی کے ناگفتہ بر حالات بھی تحریر فرمائے ہیں جس کے پڑھنے سے جسم کا بال بال کھڑا ہو جاتا ہے۔ آپ کے نوجوانوں کو ایسے مضامین پڑھنا چاہئے تاکہ انہیں احساس ہو کہ قیام پاکستان نا گریز تھا۔
سفر حرمین شریفین :
۱۹۵۵ء کو پہلا حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی اس کے بعد متعدد باعمرے و حاضری مدینہ منورہ کی سعادت حاصل ہوتی رہی ۔
ہر سفر حج میں کوئی نہ کوئی صاحب سلسلہ بزرگ ساتھ لیتے تھے جن کی خدمات خود اور اہل حلقہ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی معذور شخص مل جاتا جسے ذوق حرمین شریفین ہوتا اس کو بھی ’’قافلہ رحمانی ‘‘ میں ساتھ لے لیتے تھے۔ سبحان اللہ !
خلفاء :
آپ سے فیض یاب بعض خلفاء کے اسماء درج ذیل ہیں :
٭ چوہدری عمر دین رحمانی (ایم ، اے انگلش)
٭ صوفی سید محمد ظہر الحسن رحمانی موٗ لف ربیع المجالس
٭ ملک ریاض حسین رحمانی بابا
٭ مولانا ابرار احمد رحمانی مشہور خطیب
٭ حافظ قاری ممتاز احمد رحمانی ، خانقاہ ممتازیہ ملیر کراچی
وصال :
حضرت خواجہ محمد فاروق رحمانی نے یکم ذیقعدہ ۱۴۰۳ھ بمطابق ۱۱، اگست ۱۹۸۳ء کو ۸۱سال کی عمر میں انتقال کیا۔
آپ کا آستانہ عالیہ الفاروق جہانگیر روڈ کراچی پر واقع ہے۔
[آپ کے حالات زندگی پر لکھی ہوئی کتاب ’’ربیع المجالس ‘‘موٗلف سید ظہر الحسن رحمانی مطبوعہ حلقہ رحمانی خانقاہ الفاروق کراچی ۱۹۹۵ء سے حالات ماخوذہیں ]