ولادت باسعادت:

حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قدس سرہ ١٣٢٣ھ /١٩٠٥ء کو موضع دیال گڑھ ضلع گورداسپور (مشرقی پنجاب ، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ دیال گڑھ ضلع گورداسپور کا مشہور قصبہ ہے جو بٹالہ سے چار میل کے فاصلے پر ہے۔

اسم گرامی:

والدین نے آپ کا نام (باقی بھائیوں کے ناموں کی مناسبت سے) سردار محمد رکھا۔ لیکن جب آپ علم دین کے حصول کیلئے بریلی شریف تشریف لے گئے تو وہاں کے اکابر اساتذہ ، احباب اور ہم درس طلبہ آپ کو سردار احمد کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ اس صورت حال میں آپ نے والدین کا تجویز کردہ نام بھی ترک نہ فرمایا اور اساتذہ کرام کا عطا کردہ نام بھی استعمال میں رکھا ۔ یوں آپ اپنا نام محمد سردار احمد تحریر فرمایا کرتے تھے۔

کنیت:

مناظرہ بریلی (١٣٥٤ھ /١٩٣٥ء) میں دیو بندیوں کے منظور نظر مناظر مولوی منظور سنبھلی کے مقابلہ میں عدیم المثال کامیابی پر آپ کی کنیت ابو المنظور مشہور ہوگئی۔ بعد میں صاحبزادہ محمد فضل رسول صاحب کی ولادت پر ابو الفضل ہوئی اور بمقتضائے ” الاَسْمَاءُ تَتَنَزَّلُ مِنَ السَّمَائِ” اس عظیم المرتبت صاحب علم و فضل کے لئے یہی کنیت موزوں بھی تھی۔

نائبِ دینِ نبی سردار احمد تیرا نام
یعنی تو فضل خدا سے قوم کا سردار ہے

خاندان:

آپ کا تعلق سیہول جٹ خاندان سے ہے ۔ شرافت ، دیانت ، پاکبازی اور مہمان نوازی میں یہ خاندان علاقہ بھر میں شہرت رکھتا تھا۔ پوراخاندان مشائخ کرام کامرید اور عقیدت مند تھا ۔ حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ سے کمال درجہ کی محبت رکھتا تھا۔

والدین کریمین:

آپ کے والد ماجدکا اسم گرامی چوہدری میراں بخش چشتی تھا ۔ ان کا پیشہ کاشت کاری تھا ۔ زمین گاؤں کے قریب ہی تھی۔ تقریباً پچاس بیگھہ مزروعہ زمین کے مالک تھے۔ اس میں نصف زمین چاہی اور اتنی ہی بارانی تھی۔ زمین زرخیر ہونے کی وجہ سے نہایت عمدہ فصل اور اعلیٰ قسم کا کماد پیدا ہوتا تھا۔

چوہدری میراں بخش چشتی دیہاتی ماحول کی برائیوں سے الگ تھلگ رہتے ۔ کسی کی غیبت نہ کرتے ۔ کسی کے نقصان میں راضی نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی دشمنی کسی سے پیدا نہ ہوئی۔ یونہی حضرت محدث اعظم پاکستان کی والدہ محترمہ نہایت پاک سیرت عفیفہ تھیں۔ پابند صوم و صلوٰۃ اور حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ کی فدائی و شیدائی تھیں۔

چوہدری میراں بخش چشتی رحمۃ اﷲ علیہ کا وصال محرم الحرام ١٣٣٧ھ/ ١٤ اکتوبر ١٩١٨ء کو ہوا۔ جبکہ والدہ محترمہ دو برس قبل انتقال فرما چکی تھیں۔

پیرو مرشد جیسا ہو جاؤں:

شریعت و طریقت سے محبت کی بناء پر آپ نے اسکول کی تعلیم کے دوران ہی سراج العارفین حضرت شاہ سراج الحق چشتی قدس سرہ کے دستِ اقدس پر بیعت کرلی ۔ یہ بیعت مروجہ رسمی بیعت نہ تھی بلکہ حقیقی بیعت تھی ۔ شیخ طریقت سے عقیدت ایسی پختہ تھی کہ اکثر و بیشتر اس تمنا کا شدت سے اظہار فرمایا کرتے تھے کہ :

“میرا دل چاہتا ہے کہ میں پیر و مرشد صوفی سراج الحق صاحب جیسا ہوجاؤں۔”

تحصیل علم

قرآن پاک ناظرہ پڑھنے کے بعد حضرت محدث اعظم پاکستان کو اس دور کے رواج کے مطابق پرائمری اسکول میں داخل کرادیا گیا ۔ یہا ں پر آپ نے مولانا ذوالفقار علی قریشی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جو پرائمری اسکول میں صدر مدرس ہونے کے ساتھ گاؤں کی مسجد کے امام و خطیب بھی تھے۔قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قرآن مجید ناظرہ بھی مولانا قریشی سے پڑھا تھا۔ مولانا موصوف حضرت شیخ الحدیث پر خصوصی توجہ فرماتے اور پیشانی میں سعادت ِازلی کے نمایاں آثار دیکھ کراکثر بزبانِ پنجابی فرماتے :

“اوئے جٹّا! توں تے وڈا نامور مولوی عمل والا ہو ویں دا۔”

میٹرک کا سالانہ امتحان جو اُن دنوں پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی فرسٹ ڈویژن میں پاس کرنے کے بعد آپ نے پٹواری کا امتحان دینے کا ارادہ فرمایا وجہ یہ تھی کہ آپ کے شیخِ طریقت حضرت شاہ سراج الحق چشتی علیہ الرحمۃ نے بھی پٹوار ی کا امتحان پاس کر رکھا تھا۔ لہٰذا ان کی پیروی میں آپ نے بھی پٹوار ی کا امتحان پاس کیا لیکن ملازمت نہ فرمائی۔پولیس کی ملازمت کی بھی پیشکش ہوئی لیکن آپ نے انکار فرمادیا۔

دینی تعلیم کا آغاز:

ایف ۔اے کا امتحان دینے کیلئے آپ لاہور تشریف لائے اور یہاں امتحان کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ انہی دنوں انجمن حزب الاحناف کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ دین سے فطری محبت و عقیدت آپ کو کشاں کشاں اس اجلاس میں لے گئی۔ یا یوں کہئیے کہ “فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنابندی” کے مصداق قدرت کو اب یہی منظور تھا کہ آپ کو اس عظیم کام کی جانب متوجہ کیا جائے جس کی خاطر آپ کو پیدا کیا گیا۔

دورانِ اجلاس حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی نے تقریر کرتے ہوئے شہزادہ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان کی بریلی سے تشریف آوری کا اعلان نہایت شاندار الفاظ میں یوں فرمایا:

“اعلیٰ حضرت ،عظیم البرکت ، مجدد مائۃ حاضرہ ،مؤید ملت طاہرہ ، صاحب الدلائل القاہرہ ، ذی التصانیف الباہرہ، امام اہلسنت مولانا الشاہ احمد رضاخان صاحب بریلوی قدس سرہ کے شہزادے حامی سنت، ماحی بدعت، رہبر شریعت، فیض درجت، مفتی انام ، مرجع الخواص والعوام ،حجۃ الاسلام مولانا الشاہ حامد رضا خان صاحب تشریف لارہے ہیں۔”

حضرت شیخ الحدیث نے سوچا کہ جب اعلان کرنے والا خود اس درجہ عظیم الشان عالم ہے تو جس کی آمد کا اعلان کیا جارہا ہے وہ کس پائے کا عالم ہوگا لہٰذا آنے والے کی عظمت و شان کا تصور رکے آپ زیارت کے مشتاق ہوگئے۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور حضرت حجۃ الاسلام جو حسن باطنی کے ساتھ حسن ظاہری سے بھی مالامال تھے جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے۔ مشتاقانِ دید پروانوں کی طرح آپ کے جمال ِ پاک پر نثار ہورہے تھے۔ اس ہجوم میں حضرت شیخ الحدیث بھی تجلیات ِ دیدار سے اپنے قلب و ذہن کو منور کررہے تھے ۔ اس زیارت کا فوری اثر یہ ظاہر ہوا کہ آپ نے ایف ۔ اے پاس کرنے کا ارادہ ترک کر کے حصول علم دین اور تبلیغ اسلام کا پختہ عزم کرلیا اور اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حضرت حجۃ الاسلام کے ہمراہ بریلی جانے کا ارادہ فرمالیا۔ لیکن ابھی حضرت سے اجازت لینے کا مرحلہ باقی تھا لہٰذا دھڑکتے دل کے ساتھ حضرت حجۃ الاسلام کی قیام گاہ آستانہ عالیہ حضرت شاہ محمد غوث علیہ الرحمۃ حاضر ہوئے ۔

عرض مدّعا:

آپ نے حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں کی خدمت میں اپنی کیفیت اور قلبی انقلاب کا ذکر کر کے بریلی ساتھ جانے اور علم دین حاصل کرنے کی تمنا کا اظہار کیا حضرت حجۃ الاسلام پہلی نظر میں ہی کشتہ تیر نظر کو پہچان گئے اور پیشانی پر چمکتے ہوئے سعادت ِ ازلی کے آثار دیکھ کر بھانپ گئے کہ یہ نوجوان ملت اسلامیہ کے ماتھے کا جھومر اور اہلسنت کا عظیم رہبر ہوگا۔ لہٰذا بکمالِ شفقت حضرت شیخ الحدیث کی درخواست کو شرف ِ قبولیت عطا فرمایا اور دو دن مزید قیام کے بعد آپ کو اپنے ساتھ بریلی شریف لے گئے۔

مرکز علم و عرفاں بریلی میں:

بریلی پہنچ کر آپ نے دارالعلوم منظر اسلام میں تعلیم شروع فرمائی۔ دارالعلوم کے دیگر طلبہ کا قیام شہر کی مساجد میں ہوتا تھا لیکن نو وارد طالب علم محمد سردار احمد کو حضرت حجۃ الاسلام نے خاص اپنے آستانے پر ٹھہرایا۔ حضرت شیخ الحدیث کے قیام، طعام اور دیگر تمام اخراجات کا ذمہ بھی آپ نے لے لیا۔ جس قسم کا لباس اپنے صاحبزادوں کیلئے بنواتے اسی قسم کا لباس آپ کے لئے بھی سلواتے ۔ یہاں تک کہ لباس کے رنگ میں بھی یکسانیت اختیار فرماتے۔

جب دیکھتا، پڑھتے دیکھتا:

حضرت مفتیئ اعظم فرماتے ہیں :”میں جب ان (حضرت شیخ الحدیث) کو دیکھتا، پڑھتے دیکھتا۔ مدرسہ میں ، قیام گاہ پر، حتّٰی کہ جب مسجد میں آتے تو بھی کتاب ہاتھ میں ہوتی ۔اگر جماعت میں تاخیر ہوتی تو بجائے دیگر اذکار و اوراد کے مطالعہ میں مصروف ہوجاتے ۔ ان کے اس والہانہ ذوق ِ تحصیل علم سے میں بہت متاثر ہوا ۔
میرے پاس دوسرے پنجابی طالب علم مولوی نذیر احمد سلمہ پڑھتے تھے ان سے دریافت کرنے پر انہوں نے ان کی ساری سرگزشت سنائی پھر ان کے ذریعے وہ میرے پاس آنے جانے لگے ان کے باصرار درخواست کرنے اور مولوی نذیر احمدکی سفارش پر میں نے انہیں منیہ ، قدوری، کنز اور شرح جامی تک پڑھایا۔”

بریلی سے اجمیر:

یہ وہ زمانہ تھا کہ حضرت صدرالشریعہ مولانا محمد امجد علی اعظمی دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں صدرالمدرسین تھے۔ اور حضرت کی بے مثال تدریس کا ڈنکا پوری دنیا میں بج رہاتھا۔ حضرت شیخ الحدیث کو اﷲ تعالیٰ نے جس عظیم الشان خدمت دین کیلئے پیدا فرمایا تھا اس کیلئے حضرت صدرالشریعہ جیسے بحر العلوم مربی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ جب خود خانوادہئ رضویت کے بعض افراد مثلاً مولانا محمد ادریس رضاخاں اجمیر مقدس بغرض تعلیم جانے لگے تو آپ بھی ہر دو صاحبزادگانِ اعلیٰ حضرت سے اجازت لیکر حضرت صدرالشریعہ کی خدمت میں اجمیر مقدس حاضر ہوگئے۔ سلطان الہند خواجہئ اجمیر قدس سرہ کی بارگاہ عرش پناہ میں علم و فضل کے قطب اوحد( حضرت صدرالشریعہ) سے انہیں کیا ملا؟ اس بارے میں حضور مفتیئ اعظم مولانا مصطفی رضا خاں قدس سرہ کی شہادت کافی ہے۔ فرماتے ہیں:

“پھر تو بحر العلوم کے پاس گئے اور خود بھی بحر العلوم ہوگئے۔”

تدریس

حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قدس سرہ بے مثل محدث ، عظیم فقیہ، کہنہ مشق مدرس ، کامیاب مناظر ،بالغ نظر مفتی، بہترین مصنف ، با فیض شیخ طریقت اور اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔ چاہتے تو دین کی خدمت کیلئے تدریس کے بجائے کوئی اور میدان منتخب فرمالیتے لیکن اس شعبے میں قحط الرجال کو دیکھتے ہوئے اپنے اُستاذِ محترم حضرت صدر الشریعہ کی اتباع میں آپ نے خود کو دینی علوم کی تدریس کیلئے ہمہ تن وقف کردیا ۔ خوش قسمتی سے فارغ التحصیل ہوتے ہی آپ نے اپنی مادر علمی دارالعلوم منظر اسلام بریلی سے ١٣٥٢ھ/ ١٩٣٣ء میں تدریس کا شاندار آغاز کیا ۔

فیصل آباد تشریف آوری:

آپ نے مفتیئ اعظم مولانا شاہ مصطفی رضاخاں بریلوی جو ان دنوں بغرض ِحج حرمین شریفین میں مقیم تھے سے استصواب کیا کہ آیا ساروکی رہ کر دین کی خدمت کروں یا لائل پور میں ؟ مفتیئ اعظم کی دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا کہ حضرت شیخ الحدیث کی عالمی تبلیغی سرگرمیوں کیلئے ساروکی کا دیہاتی ماحول نہیں بلکہ لائل پور جیسا مرکزی شہر زیادہ موزوں ہے لہٰذا آپ نے دیارِ حبیب سے جو جواب مرحمت فرمایا اس میں لائل پور میں خدمتِ دین انجام دینے کی طرف اشارہ تھا۔ رمضان المبارک ١٣٦٨ھ/جولائی١٩٤٩ء میں آپ لائل پور (فیصل آباد ) تشریف لے آئے۔ ابتداء میں آپ کا قیام محلہ سنت پورہ میں تھا ۔ آپ کا ارادہ یہ تھا کہ نئے تعلیمی سال (شوال ١٣٦٨ھ ) سے تدریس کا آغاز کردیا جائے ۔

وعظ و تقریر

اگرچہ تدریس، تبلیغ کی احسن صورت ہے۔ لیکن عوام الناس پر براہِ راست اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے تقریر کی اہمیت کا انکار بھی ممکن نہیں۔ حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ، اس ذریعہئ تبلیغ کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔لہٰذاآپ دن کو تدریس کے فرائض سر انجام دیتے اور رات کو فیصل آباد کی گلی گلی ، کوچے کوچے میں عشق مصطفی علیہ التحیہ و الثناء کی خوشبوئیں اور حسنِ عمل کے موتی بکھیرتے۔

تحریکِ پاکستان میں شرکت:

مسلمانوں کے علیحدہ وطن پاکستان کے قیام کیلئے آپ نے بھر پور جد وجہد فرمائی۔ اس مقصد کیلئے قائم اہل سنت کی ملک گیر تنظیم آل انڈیا سُنی کانفرنس کے کئی اجلاسوں میں آپ نے شرکت فرمائی۔

قیام ِ پاکستان پر اظہارِ مسرت:

جمعۃ الوداع (٢٧رمضان المبارک ١٣٦٦ھ/ ١٥ اگست ١٩٤٧ء ) کا خطبہ آپ نے اپنے آبائی قصبہ دیال گڑھ میں دیا۔اس موقع پر آپ نے قیامِ پاکستان پر اظہارِ مسرت فرماتے ہوئے اﷲ کا شکر ادا کیا اور لوگوں کو نئے اسلامی ملک کے قیام پر مبارکباد دی۔

ذوقِ عبادت:

عبادت کا ایسا ذوق و شوق تھا کہ بچپن میں ہی چلتے پھرتے ذکر کرتے اور نعت پڑھتے رہتے ۔ والد ماجد کی انگلی پکڑ کر مسجد میں جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے۔ آپ کی نماز روایتی نماز نہ ہوتی بلکہ بارگاہِ خداوندی میں حاضری کا تصور ذہن پر غالب رہتا۔ اجمیر شریف کے زمانہ طالب علمی میں آپ کی نمازوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حافظ ملت مولانا عبد العزیز مبارکپوری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :” سلسلہ کے وظائف اور نماز با جماعت کے پابند تھے۔ خشیّتِ ربّانی کا یہ عالم تھا کہ نماز میں جب امام سے آیت ترہیب سنتے تو آپ پر لرزہ طاری ہوجاتا حتیٰ کہ پاس والے نمازی کو محسوس ہوتا تھا یہ طالب علمانہ مقدس زندگی کی کیفیات ہیں۔ اس سے آپ کی روحانیت کا اندازہ ہوسکتا ہے اور آپ کے مقامِ رفیع کا پتہ چل سکتا ہے۔

توکل علی اﷲ :

آپ کی حیات طیبہ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی کے ہر موڑ پر اﷲ تعالیٰ پر توکل اور کامل بھروسہ جلوہ آراء نظر آتا ہے ۔ چشمِ تصور سے ذرا دیکھئے کہ فیصل آباد کا اجنبی اور مخالفانہ ماحول اور بریلی کے نامور شیخ الحدیث کا ایک چبوترے پر بیٹھ کردرسِ حدیث شروع کردینا،مخالفوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مدرسہ اور پاکستان کی عظیم الشان مسجد کی بنیاد رکھ دینا۔ اپنوں، بیگانوں کی جانب سے سازشوں حتیٰ کہ قاتلانہ حملوں کے باوجود پایہئ ثبات میں لغزش نہ آنابغیر خدا پر توکل اور بھروسے کے کیا ممکن نظر آتا ہے؟

عشقِ مصطفی علیہ التحیہ و الثناء:

اس عقیدے پر پوری اُمت کا قطعی ، یقینی اجماع ہے کہ ایمان کی جان عشقِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ تمام رشتوں، ناتوں، دوستیوں اور تعلقات سے بڑھ کر اگر سرکارِ دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت نہیں تو ایمان نا مکمل ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

مغزِ قرآں، روحِ ایماں ، جانِ دیں
ہست حُبِّ رحمۃ للعلمین

حضرت محدث اعظم علیہ الرحمۃ کے اخلاق و عادات کی سب سے نمایاں بات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے والہانہ محبت ہے۔ ان کے اس وصف ِ خاص کا اظہار صرف ان کی زبان ہی سے نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ ان کے دل میں رچا ہوا اور رگ و ریشہ میں سمایاہوا تھا۔

اَلْحُبُّ ِﷲِ وَالْبُغْضُ ِﷲِ:

اﷲ کی رضا کی خاطر دوستی اور اسی کی خاطر دشمنی تکمیل ایمان کیلئے ضروری ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:

مَنْ اَحَبَّ ِﷲِ وَ اَبْغَضَ ِﷲِ وَ اَعْطٰی ِﷲِ وَ مَنَعَ ِﷲِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ
جس نے اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی سے محبت کی ، اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی سے عداوت کی، اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی کو کچھ دیا اور اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی کو کچھ نہ دیا اس نے ایمان کو مکمل کرلیا۔

حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمۃ نے اس حدیث پاک پر یہاں تک عمل کیا کہ اﷲ اور اس کے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں سے تعلقات تو کجا عمر بھر مصافحہ تک نہ کیا۔ عمر کے آخری ایام میں حضرت سیدمعصوم شاہ نوری سے فرمایا: “شاہ صاحب ! میری دو باتوں کے گواہ رہنا۔ایک تو یہ کہ یہ فقیر حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ کا مرید اور غلام ہے دوسری یہ کہ اس فقیر نے عمر بھر کسی بے دین سے مصافحہ نہیں کیا۔”

صدارت نہیں سدا ردّ:

جس طرح آپ بد مذہبوں اور بے دینوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے ویسے ہی آپ ان کے جلسوں اور جلوسوں میں بھی شرکت سے گریز فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ دیوبندیوں ، وہابیوں کا ایک وفد حضرت محدث اعظم علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے پروگرام کے مطابق ایک مخلوط مشترکہ جلسہ کی صدارت کیلئے آپ سے عرض کیا تو آپ نے فوراً جواب دیا: ” فقیر ایسے جلسوں کی صدارت نہیں کرتا بلکہ ان کا سداردّ کرتا ہے۔” اس پر وفد کے ارکان لاجواب ہوکر چل دیئے۔

اساتذہ و مشائخ:

الماس و یاقوت بے شک قیمتی ہوتے ہیں مگر الماس تراش کی تراش خراش انہیں کہیں سے کہیں پہنچادیتی ہے۔اسی طرح بڑے بڑے علماء کی علمیت و قابلیت ان کے اساتذہ کی مرہون منت ہے ۔ ذیل میں حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمۃ کے اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی پیش خدمت ہیں:

حضرت صدرالشریعہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ
حضرت حجۃ الاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ
حضرت مفتیئ اعظم مولانا شاہ محمد مصطفی رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شاہ محمد سراج الحق چشتی صابری علیہ الرحمۃ
مولانا حاجی پیر محمد خان علیہ الرحمۃ
حکیم مولوی ذوالفقار علی قریشی علیہ الرحمۃ

علالت و آخری ایام :

شب و روز کی جاں گسل مصروفیات کا اثر حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ کی صحت پر پڑا جس کے نتیجے میں آپ کی طبیعت بگڑنے لگی۔پہلے پہل تو آپ نے بالکل پرواہ نہ کی اور اسی ضعف و نقاہت کے عالم میں حسب معمول درس و تدریس ، وعظ و تقریر اور دعوت و ارشاد کا سلسلہ جاری رکھا۔ ٢٥ صفر المظفر ١٣٨١ھ/٨ اگست ١٩٦١ء کو عرسِ اعلیٰ حضرت کے موقع پر آپ جلسہ گاہ تک بڑی مشکل سے تشریف لائے۔ ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے ہزاروں تلامذہ و مریدین اور اکابر علماء و مشائخ آپ کی ناسازیئ طبع سے بہت مغموم اور سخت متفکر ہوئے۔

اسی عرس کے موقع پر حضرت مولانا عنایت اﷲ صاحب نے خدمت ِ اقدس میں عرض کیا کہ صاحبزادہ محمد فضل رسول کو دستارسجادگی عطا فرمائیں اور انہیں اپنا خلیفہ اور قائم مقام مقرر فرمائیں۔ فرمایا : “اچھا پگڑی لاؤ یہ کام بھی ہوجائے۔ اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند کردے گاجس طرح حضرت صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے صاحبزادے کی دستار بندی پہلے ہوگئی تھی، وہ بھی درجات حاصل کرگئے”۔ چنانچہ بطور خلیفہ و جانشین حضر ت صاحبزادہ محمد فضل رسول کی دستار بندی تمام احباب کی موجودگی میں سنی رضوی جامع مسجد میں کی گئی۔

وصال شریف:

حضرت محدث اعظم پاکستان نے وصال شریف سے تقریباً چھ ماہ قبل اشارے ، کنایے میں اپنے وصال کا ذکر کرنا شروع کردیا تھا تاکہ احباب ہجر و فراق کے اس صدمے کو سہنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں۔

وصال شریف سے تقریباً چھ ماہ قبل آپ نے خواب دیکھا جس میں اکابر اُمت، مشائخِ عظام ، حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں بریلوی قدس سرہ،، حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی ، صدر الافاضل بدر المماثل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، مرشدِ برحق خواجہ شاہ محمد سراج الحق چشتی صابری اور دیگر پاکانِ اُمت علیہم الرحمۃ کی زیارت فرمائی۔ یہ خواب احباب و خدام سے بیان فرما کر ارشاد فرمایا:

” ان مشائخ عظام کی زیارت و ملاقات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ یہ فقیر خود ان سے جا ملے”۔

دمِ آخر آپ کے کان میں اذان دی گئی اور سورہ یٰسین شریف ، شجرہ قادریہ رضویہ، درود تاج اور قصیدہ غوثیہ پڑھا گیا۔ اسی عالم میں رات ایک بج کر چالیس منٹ پر اﷲ ہو کہتے ہوئے یہ آفتابِ علم و فضل جس کی نورانی کرنوں سے عالمِ اسلام برسوں منور ہوتا رہا، ہمیشہ کیلئے روپوش ہوگیا۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔

یکم شعبان المعظم ١٣٨٢ھ / ٢٩ دسمبر ١٩٦٢ء کی شب کو سورج ڈوبا اور صبح ہوتے ہوتے دنیائے علم و حکمت میں اندھیرا پھیل گیا۔

غسل و جنازہ:

کراچی میں آپ کو غسل دیا گیا۔ غسل دینے والوں کے نام درج ذیل ہیں:

مولانا عبد المصطفیٰ الازہری ، مولانا محمد عمر نعیمی ، مولانا محمد محسن فقیہ شافعی ، مولانا محمد معین الدین شافعی ، مولانا عبد الحمید ، سیٹھ حاجی اسمٰعیل جمال ، حاجی صوفی اﷲ رکھا۔

بعد غسل آپ کو کفن پہنایا گیا، ظفر علی نعمانی صاحب نے کفن پر کلمہ طیبہ لکھا۔ علامہ عبد المصطفیٰ الازہری نے ” یا شیخ سیدعبد القادر جیلانی شیأاً ﷲ ” لکھا اور مولانا محمد معین الدین شافعی نے” یا غوث اعظم دستگیرما” لکھا ۔ حضرت محدث اعظم کی موجودگی میں ایک مرتبہ سرکار غوثِ پاک کی منقبت پڑھتے ہوئے یہ شعر پڑھا گیا :

عزیزوں کر چکو تیار جب میرے جنازے کو
تو لکھ دینا کفن پر نام والا غوثِ اعظم کا

آپ نے اسی وقت وصیت فرمائی کہ مولوی معین ! یاد رکھنا میرے کفن پر حضور آقائے کرم ، سرکار غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اسم گرامی ضرور لکھنا۔ چنانچہ آپ کی وصیت کو پورا کرتے ہوئے سیدنا غوثِ اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کا اسمِ گرامی کفن پر تحریر کیا گیا۔ جنازہ تیار کرکے آرام باغ لایا گیا۔ راستے میں حسبِ وصیت درود شریف، کلمہ طیبہ، نعت شریف، منقبت غوثِ پاک اور صلوٰۃ و سلام پڑھا گیا۔ نمازِ جنازہ کی امامت کے فرائض شہزادہ صدر الشریعہ حضرت علامہ عبد المصطفیٰ الازہری نے انجام دئیے۔ ہزاروں افراد جنازے میں شریک تھے۔ کراچی کے تقریباً تمام علماء کرام و مشائخ عظام موجود تھے۔ جن میں مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانامحمد عمر نعیمی، مفتی ظفر علی نعمانی، پیرزادہ سید عبد القادر گیلانی سفیر عراق، مولانا شاہ ضیاء القادری ، مولانا قاری محمد محبوب رضا خاں اور مولانا عبد السلام باندوی قابل ذکر ہیں۔

نمازِ جنازہ کے بعد چہرہ انور کی زیارت کرائی گئی۔ بعدہ، تابوت میں رکھا گیا۔ اب “رضوی دولھا” کو ہزاروں باراتی بڑی شان و شوکت اور پیار و محبت سے کندھوں پر اٹھائے کراچی اسٹیشن تک لائے، راستہ بھر نعت خوانی کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں اسٹیشن پر صلوٰۃ و سلام ہوا پھر ہزاروں اشک بار آنکھوں نے اپنے محبوب مرشد و قائد کو رخصت کیا۔

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے:

فیصل آباد پہنچنے پر جنازہ اُٹھایا گیا اور ہزاروں افراد اشک بار آنکھوں کے ساتھ درود وسلام کی صداؤں میں مرکز اہلسنت جامعہ رضویہ کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اس جلوس میں علماء بھی تھے اور مشائخ بھی، مدرس بھی تھے اور محقق بھی، مریدین بھی تھے اور معتقدین بھی، ہم سبق رفیق بھی تھے اور شاگرد بھی، اپنے بھی تھے اور بیگانے بھی، چھتوں پر خواتین اور بچے بھی اس نورانی جلوس کا نظارہ کررہے تھے۔

انوار کی بارش:

سرکلر روڈ سے گزر کر جنازہ جب کچہری بازار میں داخل ہوا تو عشقِ رسالت کے جلوؤں نے اور ہی رنگ اختیار کرلیا۔اس کے اثرات نمایاں اور بہت واضح ہوگئے اور محسوس صورت میں نظر آنے لگے۔ ہوا یوں کہ تابوت مبارک پر انوار و تجلیات کی بارش ہر آنکھ کو صاف طورپر نظر آنے لگی۔ بچے، بوڑھے، جوان ہر قسم کے لوگ وہاں موجود تھے اور بڑے استعجاب کے عالم میں انوار کی اس بارش کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے تھے۔ جب یہ بے مثال جلوس گھنٹہ گھر پہنچا تو یکایک اس نور نے دبیر چادر کی صورت اختیار کرلی اور سارا تابوت اس میں چھپ گیا۔ چمکیلے تانبے کے باریک پتروں کی طرح نور کی سنہری کرنیں اس طرح تابوت پر گر رہی تھیں کہ ہزاروں نے تعجب سے اس آسمانی رحمت کو دیکھا، نور کی اس لطیف اور محسوس دھند میں جب جنازہ چھپ گیا تو جنازہ اُٹھانے والوں کو پکار کر ایک دوسرے سے پوچھنا پڑا کہ تابوت کہاں گیا؟

چند لمحات یہی کیفیت رہی پھر تابوت کے پاؤں کی طرف سے کمان کی طرح نور اُڑا اورلوگوں کو دوبارہ سب کچھ نظر آگیا۔ اس واقعہ کے عینی شاہد ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ان میں اپنے ہی نہیں وہ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت کی ذات سے خوامخواہ اختلاف تھا۔

فقید المثال جنازہ:

حضرت صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول خلف اکبر حضرت محدث اعظم کی اجازت سے مولانا عبدالقادر احمد آبادی نے نمازِ جنازہ بعد ظہر پڑھائی۔ لاکھوں افراد پر مشتمل نمازِ جنازہ کے عظیم اجتماع کو دیکھ کر ہر مکتبِ فکر کے افراد نے اعتراف کیا کہ فیصل آباد کی ستر سالہ تاریخ میں کبھی اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا۔

آخری دیدار:

نمازِ جنازہ کے بعد جسد مبارک کو سنی رضوی جامع مسجد سے ملحق انجمن فدایانِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے دفتر میں رکھ دیا گیا۔ تاکہ آخری زیارت سہولت سے ہوسکے۔ زیارت کرنے والے ایک دروازہ سے داخل ہوتے اور دوسرے دروازہ سے نکل جاتے۔ وصال فرمائے ہوئے دو دن اور دو راتیں گزرنے کے باوجود چہرہ مبارک کی تازگی کا عالم یہ تھا کہ پھولوں میں سجا ہوا چہرہ خود بھی پھول لگ رہا تھا۔ اس حسین اور دل نواز منظر کو جو دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا اور ہٹنے کا نام نہ لیتا، مجبوراً اسے ہٹا کر دوسروں کو زیارت کا موقع دیاجاتا، آخری دیدار کیلئے مشتاقوں کا ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ اگر یہ سلسلہ صبح تک جاری رکھا جاتا تو بھی ختم نہ ہوتا۔ ناچار شام سواسات بجے تک چہرہئ مبارک دکھایا گیا اس کے بعد تدفین کیلئے لے جایا گیا۔

آخری آرام گاہ:

سنی رضوی جامع مسجد اور دارالحدیث کے درمیان واقع عارضی کمرہ جس سے درجہ حفظ کے طلباء کی درس گاہ کا کام لیا جاتا تھا۔ آپ کی وصیت کے مطابق آخری آرام گاہ بنا۔ ذکر و درود و سلام کی گونج میں آپ کا جسد مبارک یہاں لایا گیا۔ ہزاروں عقیدت مند اشکبار آنکھوں سے آخری زیارت کررہے تھے۔ حضرت صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی ، شارح بخاری علامہ غلام رسول رضوی، مولانامفتی نواب الدین اور حاٖظ محمد شفیع رضوی کی موجودگی میں مولانا عبد القادر ، مولانا معین الدین اور صوفی اﷲ رکھا قبر شریف کے اندر اترے اور آپ کے جسد اطہر کو رات ساڑھے سات بجے ہمیشہ کیلئے آخری آرام گاہ میں اُتارا۔

تلامذہ وخلفاء :

درخت اپنے پھل سے اور اُستاذ اپنے شاگردوں سے پہچانا جاتاہے ۔ یوں تو حضرت محدثِ اعظم کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے جو نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں، قصبوں دیہاتوں بلکہ بیرون ملک سے آپ کے درس کی شہرت سن کر حاضر خدمت ہوئے۔ حضرت محدثِ اعظم کے جلیل القدر تلامذہ میں سے چند کے اسماء
گرامی پیشِ خدمت ہیں:

مفسر اعظم مولانا ابراہیم رضا خاں بریلوی،
شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی،
اُستاذ العلماء مولانا علامہ سید جلال الدین شاہ صاحب،
اُستاذ العلماء علامہ محمد عبد الرشید جھنگوی،
نبیرہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ حماد رضا نعمانی میاں،
پیر طریقت حضرت مولانا پیر محمد فاضل نقشبندی،
اُستاذ العلماء حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی،
شمس العلماء علامہ مفتی محمد نظام الدین سہسرامی،
مفتیئ اعظم کراچی علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی،
شیر اہل سنت مولانا محمد عنایت اﷲ قادری رضوی،
مخدوم ملت علامہ سبطین رضا خاں بریلوی،
اُستاذ العلماء علامہ تحسین رضا خاں بریلوی،
ریحانِ ملت مولانا محمد ریحان رضا خاں بریلوی،
علامہ ابو الشاہ عبد القادر احمد آبادی،
شیخ الفقہ مولانا محمد شمس الزماں قادری رضوی،
اُستاذ العلماء مولاناصاحبزادہ عزیز احمد سیالوی،
اُستاذ العلماء مولانا معین الدین شافعی رضوی،
مجاہد ملت علامہ الحاج ابو داؤد محمد صادق قادری رضوی،
اُستاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی،
عالمی مبلغ اسلام مولانا محمد ابراہیم خوشتر صدیقی،
اُستاذ العلماء علامہ مفتی محمد حسین قادری رضوی،
شیخ الحدیث علامہ ابو الفتح محمد نصر اﷲ خان افغانی،
خطیبِ پاکستان مولانا محمد بشیراحمد رضوی وغیرہ۔

اولاد امجاد:

حضرت محدث اعظم کو اﷲ تعالیٰ نے چار صاحبزادے اور چھ صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔ صاحبزادگان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:

(١) محمد فضل رسول
(٢) محمد فضل رحیم
(٣) محمد فضل احمد رضا
(٤) محمد فضل کریم

صاحبزادہ محمد فضل رحیم کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ جبکہ تینوں صاحبزادگان اور چھ صاحبزادیاں حضرت محدث اعظم کے وصال کے وقت بقید حیات تھیں۔

Menu