1. Home
  2. chevron_right
  3. Personalities
  4. chevron_right
  5. Hazrat Abu Bakr Siddiq
علمائے اہلسنت کا اس امر پر اجماع اور اتفاق ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ، انکے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور اسکے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ، انکے بعد عشرہ مبشرہ کے دیگر حضرات رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین، پھر اصحابِ بدر رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین، پھر باقی اصحابِ اُحد رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین انکے بعد بیعتِ رضوان والے اصحاب رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اور انکے بعد دیگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے افضل ہیں۔ (تاریخ الخلفاء: ١٠٨)
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو سب سے پہلے اسلام لانے کا شرف حاصل ہے۔ بعض کے نزدیک حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سب سے پہلے ایمان لائے ہیں۔ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اس طرح کے مختلف اقوال میں یوں تطبیق کی ہے کہ مردوں میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ، عورتوں میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور بچوں میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سب سے پہلے ایمان لانے کا اعزاز حاصل ہے۔
تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ قبولِ اسلام کے بعد سے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک تک ہمیشہ سفر وحضر میں آپ کے رفیق رہے بجز اس کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم یا اجازت سے آپ کے ساتھ نہ رہ سکے ہوں۔
آپ تمام صحابہ کرام میں سب سے زیادہ سخی تھے۔آپ نے کثیر مال خرچ کر کے کئی مسلمان غلام آزاد کرائے۔ ایک موقع پر سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ابوبکر کے مال نے مجھے جتنا نفع دیا اتنا کسی کے مال نے نہیں دیا۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے روتے ہوئے عرض کی، ”میرے آقا! میں اور میرا مال سب آپ ہی کا ہے”۔
تمام صحابہ کرام میں آپ ہی سب سے زیادہ عالم تھے۔ آپ سے ایک سوبیالیس احادیث مروی ہیں حالانکہ آپ کو بکثرت احادیث یاد تھیں۔ قلتِ روایت کا سبب یہ ہے کہ احتیاط کے پیشِ نظر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عمل یا اس سے حاصل شدہ مسئلہ بیان فرمایا کرتے۔ آپ سب سے زیادہ قرآن اوردینی احکام جاننے والے تھے،اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو نمازوں کا امام بنایا تھا۔آپ اُن خاص صحابہ میں سے تھے جنہوں نے قرآن کریم حفظ کیا تھا۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کے سلسلے میں سب سے زیادہ اجروثواب حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو ملے گا کیونکہ سب سے پہلے قرآن کریم کتاب کی صورت میں آپ ہی نے جمع کیا۔
حضرت ابن مسیب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وزیرِ خاص تھے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے تمام امور میں مشورہ فرمایا کرتے تھے۔ آپ اسلام میں ثانی، غار میں ثانی، یومِ بدر میں سائبان میں ثانی اور مدفن میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ثانی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ پر کسی کو فضیلت نہیں دی۔
آپ کا سب سے بڑا کارنامہ مرتدوں سے جہاد اور ان کے فتنے کا مکمل انسداد ہے۔ یمامہ، بحرین اور عمان وغیرہ کے مرتدین کی سرکوبی کے بعد اسلامی افواج نے ایلہ، مدائن اور اجنادین کے معرکوں میں فتح حاصل کی۔آپ کی خلافت کی مدت دو سال سات ماہ ہے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے وصال کے وقت اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا، یہ اونٹنی جس کا ہم دودھ پیتے ہیں اور یہ بڑا پیالہ جس میں ہم کھاتے پیتے ہیں اور یہ چادر جو میں اوڑھے ہوئے ہوں، ان تین چیزوں کے سوا میرے پاس بیتُ المال کی کوئی چیزنہیں۔ ان چیزوں سے ہم اسوقت تک نفع لے سکتے تھے جب تک میں امورِ خلافت انجام دیتا تھا۔ میرے انتقال کے بعد تم ان چیزوں کو حضرت عمر کے پاس بھیج دینا۔ آپ کے وصال کے بعد جب یہ چیزیں سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو واپس کی گئیں تو انہوں نے فرمایا، اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے۔ انہوں نے اپنے جانشین کو مشقت میں ڈال دیا۔
امام شعبی رحمہ اللہ نے روایت کیاہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو اﷲ تعالیٰ نے چار ایسی خصوصیات سے متصف فرمایا جن سے کسی اور کو سرفراز نہیں فرمایا۔

اوّل: آپ کا نام صدیق رکھا۔
دوم : آپ غار ثور میں محبوبِ خدا اکے ساتھی رہے۔
سوم: آپ ہجرت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رفیقِ سفر رہے۔
چہارم: حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی آپ کو صحابہ کی نمازوں کا امام بنا دیا۔
آپ کی ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ آپ کی چار نسلوں نے صحابی ہونے کا شرف پایا۔ آپ صحابی، آپ کے والد ابو قحافہ صحابی ، آپ کے بیٹے عبدالرحمٰن صحابی اور انکے بیٹے ابو عتیق محمد بھی صحابی رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین۔   (ماخوذ از تاریخ الخلفاء)
فضائلِ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ، قرآن میں

ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہ، عَلَیْہِ۔ (التوبۃ:٤٠)
” آپ دو میں سے دوسرے تھے ، جب وہ دونوں (یعنی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ)غار میں تھے ، جب (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ےار سے فرماتے تھے ، غم نہ کر ، بیشک اﷲ ہمارے ساتھ ہے تو اﷲ نے اس پر اپنی تسکین نازل فرمائی”۔ (کنزالایمان)
صدرُالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ،
”حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت اس آیت سے ثابت ہے۔ حسن بن فضل نے فرمایا، جو شخص حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی صحابیت کا انکار کرے وہ نص قرآنی کا منکر ہو کر کافر ہوا”۔ (تفسیربغوی، تفسیر مظہری، تفسیر خزائن العرفان)
مرزا مظہر جانِ جاناں رحمہ اللہ ” اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا” کی تفسیر میں فرماتے ہیں،
” حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے ےہی فضیلت کافی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے بغیر کسی فرق کے، اﷲ تعالیٰ کی اس معیت کو ثابت کیا جو انہیں خود حاصل تھی ۔ جس نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت کا انکار کیا اس نے اس آیت کریمہ کا انکار کیا اور کفر کا ارتکاب کیا”۔(تفسیر مظہری)
”سَکِیْنَتَہ، عَلَیْہِ” کی تفسیر میں حضرت عبداﷲبن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ،
” یہ تسکین حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر نازل ہوئی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تو سکینت ہمیشہ ہی رہی تھی”۔(ازالۃالخفاء ج ٢:١٠٧، تاریخ الخلفاء : ١١١)
2۔ ابن عساکررحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے سوا تمام مسلمانوں پر عتاب فرمایا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کریمہ کے آغاز میں ہے۔
اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا۔ ( التوبۃ: ٤٠)
” اگر تم محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد نہ کرو تو بیشک اﷲ نے انکی مدد فرمائی، جب کافروں کی شرارت سے انہیں باہر تشریف لے جانا ہوا(ہجرت کے لیے)”۔(کنزالایمان)
امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، یہ آیت اس دعوے کی دلیل ہے کہ رب تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس عتاب سے مستثنیٰ فرمایا ہے۔ (تاریخ الخلفاء: ١١٣)
3۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰئِکَتَہ، یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی ، یا رسول اﷲا! اﷲ تعالیٰ جو فضل وشرف بھی آپ کو عطا فرماتا ہے تو ہم نیازمندوں کو بھی آپ کے طفیل میں نوازتاہے۔ اسی وقت اﷲتعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (تفسیر خزائن العرفان، تفسیر مظہری، تاریخ الخلفاء: ١١٢)
ہُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰئِکَتُہ، لِیُخْرِجَکُمْ مِنَ الظّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَکَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا (الاحزاب: ٤٣)
”وہی ہے کہ درود بھیجتاہے تم پر وہ اور اسکے فرشتے کہ تمہیں اندھیریوں سے اجالے کی طرف نکالے اور وہ مسلمانوں پر مہربان ہے”۔ (کنزالایمان)
وَالَّذِیْ جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہ اُولٰئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ۔ (الزمر:٣٣)
” اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے انکی تصدیق کی، یہی ڈر والے ہیں”۔(کنزالایمان از اعلیٰ حضرت محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ)
بزاروابن عساکررحمہما اللہ نے اس آیت کے شان نزول کے متعلق روایت کی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس طرح ارشادفرمایا، ”قسم ہے اُس رب کی جس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول بناکر بھیجا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے اس رسالت کی تصدیق کرائی”۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تاریخ الخلفاء:١١٢)
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ حق لیکر آنے والے سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تصدیق کرنے والے سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ دیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ حضرت ابوہریرہص سے بھی یہی مروی ہے۔ (تفسیرکبیر، تفسیر مظہری، ازالۃ الخفاء ج٢:٢٢٥)
شیعہ مذہب کی مستند تفسیر مجمع البیان میں بھی یہی تفسیر منقول ہے۔ (ج٨:٤٩٨)
وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبّہ جَنَّتٰنِ (الرحمٰن:٤٦)
”اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے،اسکے لیے دو جنتیں ہیں”۔ (کنزالایمان از اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ)
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی۔ (تفسیرمظہری، تفسیر درمنثور)

وَلاَ یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا۔
” اور قسم نہ کھائےں وہ جو تم میں فضیلت والے اور گنجائش والے ہیں قرابت والوں اور مسکینوں اور اﷲ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو دینے کی ، اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزرکریں۔ (النور:٢٢،کنزالایمان)
یہ آیت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی جب آپ نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے والوں کے ساتھ موافقت کرنے پر اپنے خالہ زاد بھائی مسطح کی مالی مدد نہ کرنے کی قسم کھائی جو بہت نادار و مسکین بدری صحابی تھے۔ آپ نے اس آیت کے نزول پر اپنی قسم کا کفارہ دیا اور انکی مالی مدد جاری فرمائی۔ صدرُالافاضل رقمطراز ہیں ،” اس آیت سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت ثابت ہوئی، اس سے آپ کی علوشان ومرتبت ظاہر ہوئی کہ اﷲتعالیٰ نے آپکو ابوالفضل (فضیلت والا)فرمایا”۔(تفسیر خزائن العرفان،تفسیر مظہری)
7۔ ایک مرتبہ یہودی عالم فخاص نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا اے ابوبکر! کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہمارا رب ہمارے مالوں میں سے قرض مانگتا ہے، مالدار سے قرض وہی مانگتاہے جو فقیر ہو، اگر تم سچ کہتے ہو تو پھر اﷲتعالیٰ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اسکی گستاخانہ گفتگو سن کر غضبناک ہوئے اور اسکے منہ پر زوردار تھپڑ مارا اور فرمایا ، اگر ہمارے اورتمہارے درمیان صلح کا معا ہدہ نہ ہوتا تو میں تیری گردن اڑا دیتا۔ فخاص نے بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جا کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی شکایت کی۔ آپ نے اسکی گستاخانہ گفتگو بیان کردی ۔ فخا رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کا انکار کردیا تو اﷲتعالیٰ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی تصدیق کرتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی۔
لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْر” وَّ نَحْنُ اَغْنِیَاءَ۔ (اٰلِ عمران: ١٨١)
”بیشک اﷲنے سنا جنہوں نے کہا کہ اﷲمحتاج ہے اور ہم غنی”۔ (کنزالایمان)
وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مِنْ اَنَابَ اِلَیَّ ۔
” اور اسکی راہ چل جو میر ی طرف رجوع لایا”۔ (لقمٰن: ١٥)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ یہ آیت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ جب وہ اسلام لائے تو حضرت عثمان، طلحہ، زبیر ، سعد بن ابی وقاص، عبدالرحمٰن بن عوف ثنے انکی رہنمائی کے سبب اسلام قبول کیا۔ (تفسیر مظہری)
لَا یَسْتَوِیْ مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُولٰئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْم بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْر (الحدید:١٠)
تم میں برابر نہیں وہ جنہوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور جہاد کیا، وہ مرتبہ میں ان سے بڑے ہیں جنہوں نے بعد فتح کے خرچ اور جہاد کیا اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا ، اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے۔ (کنزالایمان)
یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ دیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ آپ سب سے پہلے ایمان لائے اور سب سے پہلے اﷲ کی راہ میں مال خرچ کیا۔ (تفسیر بغوی)
قاضی ثناء اﷲرحمہ اﷲ فرماتے ہیں ، یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تمام صحابہ سے افضل اور صحابہ کرام تمام لوگوں سے افضل ہیں کیونکہ فضیلت کا دارومداراسلام قبول کرنے میں سبقت لے جانے ، مال خرچ کرنے اورجہاد کرنے میں ہے۔ جس طرح آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ جس نے اچھا طریقہ شروع کیا تو اسے اسکا اجر اور اس پر عمل کرنے والوں کا اجربھی ملے گا جبکہ عمل کرنے والوں کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ (صحیح مسلم)
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر صسب سے پہلے اسلام لائے اور آپکے ہاتھ پر قریش کے معززین مسلمان ہوئے۔ راہ خدا میں مال خرچ کرنے والوں میں بھی سب سے آگے ہیں۔ کفار سے مصائب برداشت کرنے والوں میں بھی آپ سب سے پہلے ہیں۔ (تفسیر مظہری)
10۔ وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقَی O الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہ، یَتَزَکّٰیO وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہ، مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰیO اِلاَّ ابْتِغَاءَ وَجْہِ رَبّہِ الْاَعْلٰیO وَلَسَوْفَ یَرْضٰی O
”اور اس (جہنم )سے بہت دور رکھا جائے گا جو سب سے بڑا پرہےزگار جو اپنا مال دےتا ہے کہ ستھرا ہو اور کسی کا اس پر کچھ احسان نہےں جس کا بدلہ دیا جائے ، صرف اپنے رب کی رضا چاہتا ہے جو سب سے بلند ہے اور بے شک قریب ہے کہ وہ (اپنے رب سے)راضی ہو گا”۔ (والیل:١٧ تا ٢١،کنزالایمان )
اکثر مفسرین کا اتفاق ہے یہ آیات مبارکہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئیں۔ (تفسیرقرطبی ،تفسیر کبیر ،تفسیرابن کثیر ،تفسیرمظہری)
ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے حضرت عروہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے سات غلاموں کو اسلام کی خاطر آزاد کیا۔اس پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ (تفسیر مظہری،تفسیرروح المعانی)
صدرُالافاضل رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ کو بہت گراں قیمت پر خرید کر آزاد کیا تو کفار کو حیرت ہوئی اور انہوں نے کہا ،بلا ل کا ان پر کوئی احسان ہو گا جو انہوں نے اتنی قیمت دے کر خریدا اور آزاد کیا ۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ظاہر فرما دیا گیا کہ حضرت صد یق اکبر کا یہ فعل محض اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہے، کسی کے احسان کا بدلہ نہیں۔ (خزائن العرفان)
قاضی ثناء اﷲ پانی پتی رحمہ اللہ آخری آےت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ،”یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے حق میں اس طرح ہے جس طرح حضور کے حق میں یہ آیت ہے،
وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی O (تفسیر مظہری )
”اور بےشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے”۔
فضائلِ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ، احادیث میں
1۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،بیشک اپنی صحبت اورمال کے ساتھ سب لوگوں سے بڑھ کر مجھ پر احسان کرنے والا ابوبکر ہے۔ اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت و موّدت تو موجود ہے ۔آئندہ مسجد میں ابوبکر کے دروازے کے سوا کسی کا دروازہ کھلا نہ رکھا جائے۔ (بخاری کتابُ المناقب)
2۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ ابوبکر کی کھڑکی کے علاوہ (مسجد کی طرف کھلنے والی) سب کھڑکیاں بند کر دی جائیں۔ ( صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ)
سرکارِ دوعالم انے اپنے وصال سے دو تین دن قبل یہ بات ارشاد فرمائی۔ اس بناء پر شارحین فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ ہے اور دوسروں کی گفتگو کا دروازہ بند کر دیا گیا ہے۔ (اشعۃ اللمعات)
3۔ حضرت عبدﷲبن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو خلیل بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں اور تمھارے اِس صاحب کو اﷲ تعالیٰ نے خلیل بنایا ہے۔(مسلم کتاب فضائل الصحابۃ)
خلیل سے مراد ایسا دِلی دوست ہے جس کی محبت رگ وپے میں سرایت کر جائے اور وہ ہر راز پر آگاہ ہو، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا محبوب صرف اللہ تعالیٰ کو بنایا۔رب تعالیٰ نے بھی آپ کو اپنا ایسا محبوب وخلیل بنایا ہے کہ آپ کی خلّت سیدنا ابراہیم ں کی خلّت سے زیادہ کامل اور اکمل ہے۔ (اشعۃ اللمعات، ملخصاً)
4۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، جس وقت ہم غار میں تھے۔ میں نے اپنے سروں کی جانب مشرکوں کے قدم دیکھے تو عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،اے ابوبکر! تمہارا ان دو کے متعلق کیا خیال ہے جن میں کا تیسرا اللہ تعالیٰ ہے۔ (مسلم کتاب فضائل الصحابۃ)
5۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں لشکرِ ذاتِ السلاسل پر امیر بنا کر بھیجا۔ ان کا بیان ہے کہ جب حاضرِ بارگاہ ہوا تو میں نے عرض کی،یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟، فرمایا، عائشہ۔ میں عرض گزار ہوا ، مردوں میں سے؟ فرمایا ، اس کے والدِ محترم یعنی ابوبکر۔ میں عرض گزار ہوا کہ پھر کون؟ فرمایا ، عمر۔ پس میں اس ڈر سے خاموش ہو گیا کہ مبادا مجھے سب سے آخر میں رکھیں۔ (بخاری، مسلم)
6۔ حضرت محمد بن حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والدِ محترم (حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ) کی خدمت میںعرض کی،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے بہتر آدمی کون ہے؟ فرمایا ، ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ میں عرض گزار ہوا کہ پھر کون ہے ؟ فرمایا ، عمر رضی اللہ تعالی عنہ ۔ تیسری بارمیں ڈرا کہ کہیں یہ نہ فرمائیں کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ، اس لیے میں نے عرض کی کہ پھر آپ ہیں؟ فرمایا ، میں تو مسلمانوں میں سے ایک فرد ہوں۔ (بخاری کتابُ المناقب)
7۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم میں سے آج کون روزہ دار ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، میں ہوں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، تم میں سے آج کس شخص نے مسکین کو کھانا کھلایا ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، میں نے۔ پھر ارشاد ہوا،تم میں سے آج کس شخص نے مریض کی عیادت کی؟ آپ ہی نے عرض کی، میں نے۔ آقا کریم انے فرمایا، جس شخص میں (ایک ہی دن میں)یہ اوصاف جمع ہونگے وہ جنتی ہو گا۔ (مسلم باب فضائل ابی بکر)
8۔ حضرت ابنِ عمررضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ہم کسی کو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے برابر شمار نہیں کیا کرتے تھے، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو، پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو دیگر صحابہ پر فضیلت دیتے اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہ دیتے۔ (بخاری کتابُ المناقب)
9۔ انہی سے مروی ہے کہ رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری میں ہم کہا کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آپ اکے بعد افضل ترین حضرت ابوبکر ہیں، پھرحضرت عمر، پھر حضرت عثمان ث۔ (ترمذی، ابوداؤد)
10۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک طویل روایت کے آخر میں ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کو جنت کے تمام دروازوں سے جنت میں جانے کے لیے بلایا جائے گا؟ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ہاں اے ابوبکر! مجھے امید ہے کہ تم ایسے ہی لوگوں میں سے ہو۔ (بخاری کتابُ المناقب)
11۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ ہمارے سردار، ہمارے بہترین فرد اور رسول اﷲا کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے۔ (ترمذی)
12۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا،تم غار میں میرے ساتھی تھے اور حوض پر میرے ساتھی ہوگے۔ (ترمذی)
13۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کسی قوم کے لئے مناسب نہیں کہ ان میں ابوبکر ہو اور ان کی امامت کوئی دوسرا کرے۔ (ترمذی)
14۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲا نے ہمیں صدقہ کا حکم فرمایا۔ اس وقت میرے پاس کافی مال تھا ، میں نے کہا کہ اگر کسی روز میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ سے سبقت لے جاسکا تو آج کا دن ہوگا۔ پس میں نصف مال لے کر حاضر ہوگیا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ گھر والوں کے لئے کتنا چھوڑا ہے؟عرض گزار ہوا کہ اس کے برابر۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ اپنا سارا مال لے آئے تو فرمایا ، اے ابو بکر اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ عرض گزار ہوئے ، ان کے لئے اﷲ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں ۔ میں نے کہا ، میں ان سے کبھی نہیں بڑھ سکتا۔ (ترمذی،ابو داؤد)
15۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ رسول اﷲا کی بارگاہ میں حاضرہوئے تو آپ نے فرمایا ،تمہیں اﷲ تعالیٰ نے آگ سے آزاد کردیا ہے۔ اس دن سے ان کا نام عتیق مشہور ہو گیا۔ (ترمذی،حاکم)
16۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ انے فرمایا،میں وہ ہوں کہ زمین سب سے پہلے میرے اوپر سے شق ہو گی ، پھر ابوبکر سے، پھر عمر سے، پھر بقیع والوں کے پاس آؤں گا تو وہ میرے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ پھر میں اہلِ مکہ کا انتظار کروں گا ، یہاں تک کہ حرمین کے درمیان حشر کیا جائے گا۔ (ترمذی)
17۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضورِاکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا،میرے پاس جبریل آئے تو میرا ہاتھ پکڑا تاکہ مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھائیں جس سے میری امت داخل ہوگی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اﷲا! میں چاہتا ہوں کہ میں آپ کے ساتھ ہوتا ، تاکہ اس دروازے کو دیکھتا۔ رسول اﷲا نے فرمایا، اے ابوبکر! تم میری امت میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگے۔ (ابوداؤد)
18۔حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دوعالم نورِ مجسم انے فرمایا، انبیاء کے علاوہ سورج کبھی کسی ایسے شخص پر طلوع نہیں ہوا جو ابوبکر سے افضل ہو۔ (الصواعق المحرقۃ:١٠٣، ابونعیم)
19 ۔ حضرت سلیمان بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اچھے خصائل تین سو ساٹھ ہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان میں سے مجھ میں کوئی خصلت موجود ہے؟ فرمایا، اے ابوبکر ! مبارک ہو۔ تم میں وہ سب اچھی خصلتیں موجود ہیں۔ (الصواعق المحرقۃ:١١٢، ابن عساکر)
20۔ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میری امت پر واجب ہے کہ وہ ابوبکر کا شکریہ ادا کرے اور ان سے محبت کرتی رہے۔ (تاریخ الخلفاء:١٢١،الصواعق المحرقۃ:١١٢، ابن عساکر)
21۔ حضرت عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، میں نے جس کو بھی اسلام کی دعوت دی اُس نے پہلے انکار کیا سوائے ابوبکر کے کہ انہوں نے میرے دعوتِ اسلام دینے پر فوراً ہی اسلام قبول کر لیا اور پھر اس پر ثابت قدم رہے۔ (تاریخ الخلفاء:٩٨، ابن عساکر)
22۔ حضرت معاذ بن جبلص سے روایت ہے کہ سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسئلہ میں میری رائے دریافت فرمائی تو میں نے عرض کی، میری رائے وہی ہے جو ابوبکر کی رائے ہے۔ اس پر آقا کریم انے فرمایا، اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں کہ ابوبکر غلطی کریں۔ (تاریخ الخلفاء:١٠٧، ابونعیم، طبرانی)
23۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ میں نے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی، آپ نے اپنی علالت کے ایام میں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کو امام بنایا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، نہیں! میں نے نہیں بنایا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے بنایا تھا(یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے انہیں امام بنایا تھا)۔ (تاریخ الخلفاء:١٢٦ ، ابن عساکر)
24۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پاس حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکر ہوا تووہ روپڑے اور فرمایا، میں چاہتا ہوں کہ میرے سارے اعمال اُن کے ایک دن کے اعمال جیسے یا اُن کی ایک رات کے اعمال جیسے ہوتے۔ پس رات تو وہ رات ہے جب وہ رسول اﷲا کے ساتھ غار کی طرف چلے۔ جب غار تک پہنچے تو عرض گزار ہوئے، خدا کی قسم! آپ اس میں داخل نہیں ہوںگے جب تک میں اس میں داخل نہ ہو جاؤںکیونکہ اگر اس میں کوئی چیز ہے تو اس کی تکلیف آپ کی جگہ مجھے پہنچے۔ پھر وہ داخل ہوئے اور غار کو صاف کیا۔ اس کی ایک جانب سوراخ تھے تو اپنی ازار کو پھاڑ کر انہیں بند کیا۔ دو سوراخ باقی رہ گئے تو انہیں اپنی ایڑیوں سے روک لیا۔ پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے کہ تشریف لے آئیے۔ رسول ُاﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر داخل ہوئے اور انکی گود میں سرِ مبارک رکھ کر سو گئے۔پس ایک سوراخ میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پیر میں ڈنگ مارا گیا تو انہوں نے اس ڈر سے حرکت نہ کی کہ آقا ومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدار ہوجائیں گے لیکن ان کے آنسو رسول اﷲا کے نورانی چہرے پر گر پڑے۔ فرمایا کہ ابو بکر ! کیا بات ہے؟ عرض کیا، میرے ماں باپ آپ پر قربان، مجھے ڈنگ مارا گیا ہے۔ چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعابِ دہن لگا دیا تو انکی تکلیف جاتی رہی۔ پھر اس زہرنے عود کیا اور وہی انکی وفات کا سبب بنا۔ اُن کا دن وہ دن ہے کہ جب رسول اﷲا نے وفات پائی تو اس وقت بعض اہلِ عرب مرتد ہو گئے اور کہا کہ ہم زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے تو انہوں نے فرمایا ، اگر کوئی اونٹ کا گھٹنا باندھنے کی رسی بھی روکے گا تو میں اس کے ساتھ جہاد کروں گا۔ میں عرض گزار ہوا کہ اے خلیفہ رسول ا! لوگوں سے الفت کیجیے اور ان سے نرمی کا سلوک فرمائیے۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا، تم جاہلیت میں بہادر تھے تو کیا اسلام لا کر بزدل ہو گئے ہو؟بے شک وحی منقطع ہو گئی، دین مکمل ہو گیا ، کیا یہ دین میرے جیتے جی بدل جائے گا؟ (مشکوٰۃ)
25۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تمام اہلِ زمین کا ایمان ایک پلّہ میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان دوسرے پلّہ میں رکھ کروزن کیا جائے تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان کا پلّہ بھاری رہے گا۔ (تاریخ الخلفاء:١٢١، شعب الایمان للبیہقی)
26۔ حضرت عامر بن عبداللہ بن زبیرث سے مروی ہے کہ جب آیت وَلَوْ اَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْہِمْ اَنِ اقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ (ترجمہ:اوراگر ہم اُن پر فرض کردیتے کہ اپنے آپ کو قتل کر دو)نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی، یا رسول اللہ! اگر آپ مجھے حکم دیتے کہ میں خودکو قتل کر لوں تو میں خود کو ضرور قتل کر دیتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم نے سچ کہا۔ (تاریخ الخلفاء:١٢٠، ابن ابی حاتم)
27۔ حضرت ابوسعید خُدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور فرمایا، اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو اس کا اختیار دیاکہ وہ دنیا کی نعمتیں پسند کر لے یا آخرت کی نعمتیں جو اللہ کے پاس ہیں تو اُس نے آخرت کی نعمتیں پسند کر لیں ۔ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ رونے لگے اور عرض کی، یارسول اللہ!کاش ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں۔ ہمیں تعجب ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی شخص کا ذکر فرمارہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں، آپ پر ہمارے ماں باپ قربان ہو جائیں۔ بعد میں ہمیں علم ہوا کہ وہ صاحبِ اختیار بندے خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی تھے۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہم سب سے زیادہ علم والے تھے۔ (بخاری، مسلم)
28۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے لوگوں سے پوچھا ، یہ بتاؤ کہ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ لوگوں نے کہا، آپ۔ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا، نہیں !سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہیں۔ سنو! جنگِ بدر میں ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے ایک سائبان بنایا تھا۔ ہم نے آپس میں مشورہ کیا کہ اس سائبان کے نیچے حضور کے ساتھ کون رہے گا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی مشرک آقاومولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کر دے۔ خدا کی قسم! ہم میں سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا تھا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ ہاتھ میں برہنہ تلوار لیے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کھڑے ہوگئے اور پھر کسی مشرک کو آپ کے پاس آنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ اگر کوئی ناپاک ارادے سے قریب بھی آیا تو آپ فوراً اس پر ٹوٹ پڑے ۔ اس لیے آپ ہی سب سے زیادہ بہادر تھے۔ (تاریخ الخلفاء: ١٠٠،مسند بزار)
یعنی اُس افضل ُ الخلق بعد الرُسُل
ثانی اثنین ِ ہجرت پہ لاکھوں سلام
Menu