حضرت خواجہ پیر محمد فاروق رحمانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

حضرت خواجہ محمد فاروق رحمانی بن حضرت محمد فرید بن وزیر حسین دہلی ( انڈیا) میں ۱۹۰۲ء کو تولد ہوئے۔ آپ کا خاندان عرب شریف سے ہندوستان کے مغل بادشاہ شہاب الدین محمد شاہجہان کی ایماء پر وطن عزیز کو خیر باد کہہ کر ہندوستان میں وارد ہوا۔ آپ کا قبیلہ نہ صرف فن تعمیرات میں ماہر تھا بلکہ خطاطی ، زرگری ، نقشہ نویسی ، شناخت جواہرات ، مصوری مغل آرٹ ، تلوار وزرہ سازی اور پچی کاری و دیگر فنون میں بھی یگانہ روزگار تھا اس لئے مغلیہ عہد حکومت میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ سولہ سال کی عمر میں والد کا انتقال ہواپھر کلی طور پر تربیت والدہ کی شفقت کے تحت ہوئی ۔

:شادی و اولاد

۱۹۲۸ء کو چھبیس سال کی عمر میں والدہ ماجد ہ فاطمہ خاتون نے اپنے بھائی شریف اللہ کی دختر نیک اختر امینہ خاتون سے آپ کی شادی کرادی ۔ جن کے بطن سے دو بیٹے اور چھ بیٹیاں تولد ہوئے۔

٭     میاں محمد اقبال رحمانی

٭     میاں محمد ناصر رحمانی

دونوں کراچی صرافہ مارکیٹ میں اعلیٰ پائے کے جوہری اور جیولرز میں شمار کئے جاتے ہیں ۔ اول ذکر بعد میں سجادہ نشین ہوئے ۔

٭     فیروز ہ بیگم

٭     طاہر ہ بیگم

٭     فریدہ بیگم

٭     ساجدہ بیگم

٭     ناصرہ بیگم

٭     مسرت بیگم

:بیعت و خلافت

شادی کے دوسال بعد والدہ ماجدہ کا انتقال ہوا تو تنہائی کا احساس ہوا کسی رہبر کامل کی ضرورت محسوس کی اس لئے تلاش مرشد شروع کر رکھی۔ تین سال کے بعد منزل ملی ۱۹۳۸ء کو حضرت شیخ طریقت خواجہ انعام الرحمن قدوسی سہار نپوری ؒ (۱۹۵۴ء ) سے دست بیعت ہوئے۔ حضرت نے آپ کو نسبت چشتیہ صابر یہ اور قادریہ سے سیراب کیا اور بعد میں خلافت سے بھی نواز ے گئے ۔

:تعلیم و تربیت

ابتدائی معلم آپ کی والد ہ ماجدہ ہیں جن کی صحبت میں رہ کر دینی تعلیم و تربیت حاصل کی ۔ آداب زندگی ، صبر ، شکر، درگذر ، توکل اور پرہیز گار جیسی صفات سے متوصف ہوئے۔بچپن سے نماز روزہ کے پابند رہے ۔ والدہ کے انتقال کے بعد مخلوق خدا کو نفع پہچانے کے نقطہ نظر سے علوم نجوم ، ابجدی قمری کے دائرے ، علم بانسہ ، علم ہیئت، علم قیافہ ، علم اسماء ، علم تعبیر رویا سیکھے ۔ علم فقہ حنفیہ، حدیث نبوی ، تفسیر قرآن اور تصوف کے متعلق اردو زبان میں کثرت سے مطالعہ کیا۔ علم جفر اور رمل میں کمال حاصل کیا۔ پھر عملیات کی طرف آئے اور کمال حاصل کیا۔

:ذریعہ معاش

آپ نے پیری مریدی اورتعویذات کو کبھی بھی ذریعہ معاش نہیں بنایا یہ تمام کام اللہ و رسولﷺ کی رضا اور خدمت خلق کے جذبہ سے جاری رکھے ۔

دہلی میں آپ کا اپنا کاروبار چاندنی چوک کے موتی بازار کے ایک بالا خانے پر سونے اور جواہرات کا تھا اور کراچی میں بھی یہی کاروبار جاری رکھا۔ جس سے اپنی ذاتی ، گھر والوں اور حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرتے تھے۔

:پاکستان آمد

دہلی سے ملتان جہاز میں آئے اور ایک ماہ قیام کے بعد کراچی تشریف لائے اور ان دنوں رنچھوڑ لائن میں ایک کمرے میں رہائش اختیار کی اور رشد و ہدایت و خدمت خلق کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ نے اپنی حالات زندگی خود قلم بند کئے ہیں اس میں تحریک پاکستان کے دور میں دہلی کے ناگفتہ بر حالات بھی تحریر فرمائے ہیں جس کے پڑھنے سے جسم کا بال بال کھڑا ہو جاتا ہے۔ آج کے نوجوانوں کو ایسے مضامین پڑھنا چاہئے تاکہ انہیں احساس ہو کہ قیام پاکستان نا گریز تھا۔

:سفر حرمین شریفین

۱۹۵۵ء کو پہلا حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی اس کے بعد متعدد بارعمرے و حاضری مدینہ منورہ کی سعادت حاصل ہوتی رہی ۔

ہر سفر حج میں کوئی نہ کوئی صاحب سلسلہ بزرگ ساتھ لیتے تھے جن کی خدمات خود اور اہل حلقہ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی معذور شخص مل جاتا جسے ذوق حرمین شریفین ہوتا اس کو بھی ’’قافلہ رحمانی ‘‘ میں ساتھ لے لیتے تھے۔ سبحان اللہ !

:خلفاء

:آپ سے فیض یاب بعض خلفاء کے اسماء درج ذیل ہیں

٭     چوہدری عمر دین رحمانی (ایم ، اے انگلش)

٭     صوفی سید محمد ظہر الحسن رحمانی (موٗ لف ربیع المجالس)

٭     ملک ریاض حسین رحمانی بابا

٭     مولانا ابرار احمد رحمانی

٭     حافظ قاری ممتاز احمد رحمانی ، خانقاہ ممتازیہ ملیر کراچی

٭    حاجی محمد ابراہیم مسکین رحمانی

:وصال

حضرت خواجہ محمد فاروق رحمانی نے یکم ذیقعدہ ۱۴۰۳ھ بمطابق ۱۱، اگست ۱۹۸۳ء کو ۸۱سال کی عمر میں وصال فرمایا۔

آپ کا مزار مبارک آستانہ عالیہ الفاروق جہانگیر روڈ کراچی پر واقع ہے۔

[آپ کے حالات زندگی پر لکھی ہوئی کتاب ’’ربیع المجالس ‘‘موٗلف سید ظہر الحسن رحمانی مطبوعہ حلقہ رحمانی خانقاہ الفاروق کراچی ۱۹۹۵ء سے حالات ماخوذہیں۔ ]

ولادت باسعادت:

حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قدس سرہ ١٣٢٣ھ /١٩٠٥ء کو موضع دیال گڑھ ضلع گورداسپور (مشرقی پنجاب ، انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ دیال گڑھ ضلع گورداسپور کا مشہور قصبہ ہے جو بٹالہ سے چار میل کے فاصلے پر ہے۔

اسم گرامی:

والدین نے آپ کا نام (باقی بھائیوں کے ناموں کی مناسبت سے) سردار محمد رکھا۔ لیکن جب آپ علم دین کے حصول کیلئے بریلی شریف تشریف لے گئے تو وہاں کے اکابر اساتذہ ، احباب اور ہم درس طلبہ آپ کو سردار احمد کے نام سے یاد کرتے تھے ۔ اس صورت حال میں آپ نے والدین کا تجویز کردہ نام بھی ترک نہ فرمایا اور اساتذہ کرام کا عطا کردہ نام بھی استعمال میں رکھا ۔ یوں آپ اپنا نام محمد سردار احمد تحریر فرمایا کرتے تھے۔

کنیت:

مناظرہ بریلی (١٣٥٤ھ /١٩٣٥ء) میں دیو بندیوں کے منظور نظر مناظر مولوی منظور سنبھلی کے مقابلہ میں عدیم المثال کامیابی پر آپ کی کنیت ابو المنظور مشہور ہوگئی۔ بعد میں صاحبزادہ محمد فضل رسول صاحب کی ولادت پر ابو الفضل ہوئی اور بمقتضائے ” الاَسْمَاءُ تَتَنَزَّلُ مِنَ السَّمَائِ” اس عظیم المرتبت صاحب علم و فضل کے لئے یہی کنیت موزوں بھی تھی۔

نائبِ دینِ نبی سردار احمد تیرا نام
یعنی تو فضل خدا سے قوم کا سردار ہے

خاندان:

آپ کا تعلق سیہول جٹ خاندان سے ہے ۔ شرافت ، دیانت ، پاکبازی اور مہمان نوازی میں یہ خاندان علاقہ بھر میں شہرت رکھتا تھا۔ پوراخاندان مشائخ کرام کامرید اور عقیدت مند تھا ۔ حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ سے کمال درجہ کی محبت رکھتا تھا۔

والدین کریمین:

آپ کے والد ماجدکا اسم گرامی چوہدری میراں بخش چشتی تھا ۔ ان کا پیشہ کاشت کاری تھا ۔ زمین گاؤں کے قریب ہی تھی۔ تقریباً پچاس بیگھہ مزروعہ زمین کے مالک تھے۔ اس میں نصف زمین چاہی اور اتنی ہی بارانی تھی۔ زمین زرخیر ہونے کی وجہ سے نہایت عمدہ فصل اور اعلیٰ قسم کا کماد پیدا ہوتا تھا۔

چوہدری میراں بخش چشتی دیہاتی ماحول کی برائیوں سے الگ تھلگ رہتے ۔ کسی کی غیبت نہ کرتے ۔ کسی کے نقصان میں راضی نہ ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی دشمنی کسی سے پیدا نہ ہوئی۔ یونہی حضرت محدث اعظم پاکستان کی والدہ محترمہ نہایت پاک سیرت عفیفہ تھیں۔ پابند صوم و صلوٰۃ اور حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ کی فدائی و شیدائی تھیں۔

چوہدری میراں بخش چشتی رحمۃ اﷲ علیہ کا وصال محرم الحرام ١٣٣٧ھ/ ١٤ اکتوبر ١٩١٨ء کو ہوا۔ جبکہ والدہ محترمہ دو برس قبل انتقال فرما چکی تھیں۔

پیرو مرشد جیسا ہو جاؤں:

شریعت و طریقت سے محبت کی بناء پر آپ نے اسکول کی تعلیم کے دوران ہی سراج العارفین حضرت شاہ سراج الحق چشتی قدس سرہ کے دستِ اقدس پر بیعت کرلی ۔ یہ بیعت مروجہ رسمی بیعت نہ تھی بلکہ حقیقی بیعت تھی ۔ شیخ طریقت سے عقیدت ایسی پختہ تھی کہ اکثر و بیشتر اس تمنا کا شدت سے اظہار فرمایا کرتے تھے کہ :

“میرا دل چاہتا ہے کہ میں پیر و مرشد صوفی سراج الحق صاحب جیسا ہوجاؤں۔”

تحصیل علم

قرآن پاک ناظرہ پڑھنے کے بعد حضرت محدث اعظم پاکستان کو اس دور کے رواج کے مطابق پرائمری اسکول میں داخل کرادیا گیا ۔ یہا ں پر آپ نے مولانا ذوالفقار علی قریشی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی جو پرائمری اسکول میں صدر مدرس ہونے کے ساتھ گاؤں کی مسجد کے امام و خطیب بھی تھے۔قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے قرآن مجید ناظرہ بھی مولانا قریشی سے پڑھا تھا۔ مولانا موصوف حضرت شیخ الحدیث پر خصوصی توجہ فرماتے اور پیشانی میں سعادت ِازلی کے نمایاں آثار دیکھ کراکثر بزبانِ پنجابی فرماتے :

“اوئے جٹّا! توں تے وڈا نامور مولوی عمل والا ہو ویں دا۔”

میٹرک کا سالانہ امتحان جو اُن دنوں پنجاب یونیورسٹی لیا کرتی تھی فرسٹ ڈویژن میں پاس کرنے کے بعد آپ نے پٹواری کا امتحان دینے کا ارادہ فرمایا وجہ یہ تھی کہ آپ کے شیخِ طریقت حضرت شاہ سراج الحق چشتی علیہ الرحمۃ نے بھی پٹوار ی کا امتحان پاس کر رکھا تھا۔ لہٰذا ان کی پیروی میں آپ نے بھی پٹوار ی کا امتحان پاس کیا لیکن ملازمت نہ فرمائی۔پولیس کی ملازمت کی بھی پیشکش ہوئی لیکن آپ نے انکار فرمادیا۔

دینی تعلیم کا آغاز:

ایف ۔اے کا امتحان دینے کیلئے آپ لاہور تشریف لائے اور یہاں امتحان کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ انہی دنوں انجمن حزب الاحناف کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ دین سے فطری محبت و عقیدت آپ کو کشاں کشاں اس اجلاس میں لے گئی۔ یا یوں کہئیے کہ “فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنابندی” کے مصداق قدرت کو اب یہی منظور تھا کہ آپ کو اس عظیم کام کی جانب متوجہ کیا جائے جس کی خاطر آپ کو پیدا کیا گیا۔

دورانِ اجلاس حضرت صدرالافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی نے تقریر کرتے ہوئے شہزادہ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خان کی بریلی سے تشریف آوری کا اعلان نہایت شاندار الفاظ میں یوں فرمایا:

“اعلیٰ حضرت ،عظیم البرکت ، مجدد مائۃ حاضرہ ،مؤید ملت طاہرہ ، صاحب الدلائل القاہرہ ، ذی التصانیف الباہرہ، امام اہلسنت مولانا الشاہ احمد رضاخان صاحب بریلوی قدس سرہ کے شہزادے حامی سنت، ماحی بدعت، رہبر شریعت، فیض درجت، مفتی انام ، مرجع الخواص والعوام ،حجۃ الاسلام مولانا الشاہ حامد رضا خان صاحب تشریف لارہے ہیں۔”

حضرت شیخ الحدیث نے سوچا کہ جب اعلان کرنے والا خود اس درجہ عظیم الشان عالم ہے تو جس کی آمد کا اعلان کیا جارہا ہے وہ کس پائے کا عالم ہوگا لہٰذا آنے والے کی عظمت و شان کا تصور رکے آپ زیارت کے مشتاق ہوگئے۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں اور حضرت حجۃ الاسلام جو حسن باطنی کے ساتھ حسن ظاہری سے بھی مالامال تھے جلسہ گاہ میں رونق افروز ہوئے۔ مشتاقانِ دید پروانوں کی طرح آپ کے جمال ِ پاک پر نثار ہورہے تھے۔ اس ہجوم میں حضرت شیخ الحدیث بھی تجلیات ِ دیدار سے اپنے قلب و ذہن کو منور کررہے تھے ۔ اس زیارت کا فوری اثر یہ ظاہر ہوا کہ آپ نے ایف ۔ اے پاس کرنے کا ارادہ ترک کر کے حصول علم دین اور تبلیغ اسلام کا پختہ عزم کرلیا اور اس عظیم مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حضرت حجۃ الاسلام کے ہمراہ بریلی جانے کا ارادہ فرمالیا۔ لیکن ابھی حضرت سے اجازت لینے کا مرحلہ باقی تھا لہٰذا دھڑکتے دل کے ساتھ حضرت حجۃ الاسلام کی قیام گاہ آستانہ عالیہ حضرت شاہ محمد غوث علیہ الرحمۃ حاضر ہوئے ۔

عرض مدّعا:

آپ نے حضرت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں کی خدمت میں اپنی کیفیت اور قلبی انقلاب کا ذکر کر کے بریلی ساتھ جانے اور علم دین حاصل کرنے کی تمنا کا اظہار کیا حضرت حجۃ الاسلام پہلی نظر میں ہی کشتہ تیر نظر کو پہچان گئے اور پیشانی پر چمکتے ہوئے سعادت ِ ازلی کے آثار دیکھ کر بھانپ گئے کہ یہ نوجوان ملت اسلامیہ کے ماتھے کا جھومر اور اہلسنت کا عظیم رہبر ہوگا۔ لہٰذا بکمالِ شفقت حضرت شیخ الحدیث کی درخواست کو شرف ِ قبولیت عطا فرمایا اور دو دن مزید قیام کے بعد آپ کو اپنے ساتھ بریلی شریف لے گئے۔

مرکز علم و عرفاں بریلی میں:

بریلی پہنچ کر آپ نے دارالعلوم منظر اسلام میں تعلیم شروع فرمائی۔ دارالعلوم کے دیگر طلبہ کا قیام شہر کی مساجد میں ہوتا تھا لیکن نو وارد طالب علم محمد سردار احمد کو حضرت حجۃ الاسلام نے خاص اپنے آستانے پر ٹھہرایا۔ حضرت شیخ الحدیث کے قیام، طعام اور دیگر تمام اخراجات کا ذمہ بھی آپ نے لے لیا۔ جس قسم کا لباس اپنے صاحبزادوں کیلئے بنواتے اسی قسم کا لباس آپ کے لئے بھی سلواتے ۔ یہاں تک کہ لباس کے رنگ میں بھی یکسانیت اختیار فرماتے۔

جب دیکھتا، پڑھتے دیکھتا:

حضرت مفتیئ اعظم فرماتے ہیں :”میں جب ان (حضرت شیخ الحدیث) کو دیکھتا، پڑھتے دیکھتا۔ مدرسہ میں ، قیام گاہ پر، حتّٰی کہ جب مسجد میں آتے تو بھی کتاب ہاتھ میں ہوتی ۔اگر جماعت میں تاخیر ہوتی تو بجائے دیگر اذکار و اوراد کے مطالعہ میں مصروف ہوجاتے ۔ ان کے اس والہانہ ذوق ِ تحصیل علم سے میں بہت متاثر ہوا ۔
میرے پاس دوسرے پنجابی طالب علم مولوی نذیر احمد سلمہ پڑھتے تھے ان سے دریافت کرنے پر انہوں نے ان کی ساری سرگزشت سنائی پھر ان کے ذریعے وہ میرے پاس آنے جانے لگے ان کے باصرار درخواست کرنے اور مولوی نذیر احمدکی سفارش پر میں نے انہیں منیہ ، قدوری، کنز اور شرح جامی تک پڑھایا۔”

بریلی سے اجمیر:

یہ وہ زمانہ تھا کہ حضرت صدرالشریعہ مولانا محمد امجد علی اعظمی دارالعلوم معینیہ عثمانیہ اجمیر شریف میں صدرالمدرسین تھے۔ اور حضرت کی بے مثال تدریس کا ڈنکا پوری دنیا میں بج رہاتھا۔ حضرت شیخ الحدیث کو اﷲ تعالیٰ نے جس عظیم الشان خدمت دین کیلئے پیدا فرمایا تھا اس کیلئے حضرت صدرالشریعہ جیسے بحر العلوم مربی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ جب خود خانوادہئ رضویت کے بعض افراد مثلاً مولانا محمد ادریس رضاخاں اجمیر مقدس بغرض تعلیم جانے لگے تو آپ بھی ہر دو صاحبزادگانِ اعلیٰ حضرت سے اجازت لیکر حضرت صدرالشریعہ کی خدمت میں اجمیر مقدس حاضر ہوگئے۔ سلطان الہند خواجہئ اجمیر قدس سرہ کی بارگاہ عرش پناہ میں علم و فضل کے قطب اوحد( حضرت صدرالشریعہ) سے انہیں کیا ملا؟ اس بارے میں حضور مفتیئ اعظم مولانا مصطفی رضا خاں قدس سرہ کی شہادت کافی ہے۔ فرماتے ہیں:

“پھر تو بحر العلوم کے پاس گئے اور خود بھی بحر العلوم ہوگئے۔”

تدریس

حضرت محدث اعظم پاکستان مولانا ابو الفضل محمد سردار احمد قدس سرہ بے مثل محدث ، عظیم فقیہ، کہنہ مشق مدرس ، کامیاب مناظر ،بالغ نظر مفتی، بہترین مصنف ، با فیض شیخ طریقت اور اعلیٰ پائے کے خطیب تھے۔ چاہتے تو دین کی خدمت کیلئے تدریس کے بجائے کوئی اور میدان منتخب فرمالیتے لیکن اس شعبے میں قحط الرجال کو دیکھتے ہوئے اپنے اُستاذِ محترم حضرت صدر الشریعہ کی اتباع میں آپ نے خود کو دینی علوم کی تدریس کیلئے ہمہ تن وقف کردیا ۔ خوش قسمتی سے فارغ التحصیل ہوتے ہی آپ نے اپنی مادر علمی دارالعلوم منظر اسلام بریلی سے ١٣٥٢ھ/ ١٩٣٣ء میں تدریس کا شاندار آغاز کیا ۔

فیصل آباد تشریف آوری:

آپ نے مفتیئ اعظم مولانا شاہ مصطفی رضاخاں بریلوی جو ان دنوں بغرض ِحج حرمین شریفین میں مقیم تھے سے استصواب کیا کہ آیا ساروکی رہ کر دین کی خدمت کروں یا لائل پور میں ؟ مفتیئ اعظم کی دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا کہ حضرت شیخ الحدیث کی عالمی تبلیغی سرگرمیوں کیلئے ساروکی کا دیہاتی ماحول نہیں بلکہ لائل پور جیسا مرکزی شہر زیادہ موزوں ہے لہٰذا آپ نے دیارِ حبیب سے جو جواب مرحمت فرمایا اس میں لائل پور میں خدمتِ دین انجام دینے کی طرف اشارہ تھا۔ رمضان المبارک ١٣٦٨ھ/جولائی١٩٤٩ء میں آپ لائل پور (فیصل آباد ) تشریف لے آئے۔ ابتداء میں آپ کا قیام محلہ سنت پورہ میں تھا ۔ آپ کا ارادہ یہ تھا کہ نئے تعلیمی سال (شوال ١٣٦٨ھ ) سے تدریس کا آغاز کردیا جائے ۔

وعظ و تقریر

اگرچہ تدریس، تبلیغ کی احسن صورت ہے۔ لیکن عوام الناس پر براہِ راست اثرات مرتب کرنے کے حوالے سے تقریر کی اہمیت کا انکار بھی ممکن نہیں۔ حضرت شیخ الحدیث قدس سرہ، اس ذریعہئ تبلیغ کی اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے۔لہٰذاآپ دن کو تدریس کے فرائض سر انجام دیتے اور رات کو فیصل آباد کی گلی گلی ، کوچے کوچے میں عشق مصطفی علیہ التحیہ و الثناء کی خوشبوئیں اور حسنِ عمل کے موتی بکھیرتے۔

تحریکِ پاکستان میں شرکت:

مسلمانوں کے علیحدہ وطن پاکستان کے قیام کیلئے آپ نے بھر پور جد وجہد فرمائی۔ اس مقصد کیلئے قائم اہل سنت کی ملک گیر تنظیم آل انڈیا سُنی کانفرنس کے کئی اجلاسوں میں آپ نے شرکت فرمائی۔

قیام ِ پاکستان پر اظہارِ مسرت:

جمعۃ الوداع (٢٧رمضان المبارک ١٣٦٦ھ/ ١٥ اگست ١٩٤٧ء ) کا خطبہ آپ نے اپنے آبائی قصبہ دیال گڑھ میں دیا۔اس موقع پر آپ نے قیامِ پاکستان پر اظہارِ مسرت فرماتے ہوئے اﷲ کا شکر ادا کیا اور لوگوں کو نئے اسلامی ملک کے قیام پر مبارکباد دی۔

ذوقِ عبادت:

عبادت کا ایسا ذوق و شوق تھا کہ بچپن میں ہی چلتے پھرتے ذکر کرتے اور نعت پڑھتے رہتے ۔ والد ماجد کی انگلی پکڑ کر مسجد میں جاتے اور باجماعت نماز ادا کرتے۔ آپ کی نماز روایتی نماز نہ ہوتی بلکہ بارگاہِ خداوندی میں حاضری کا تصور ذہن پر غالب رہتا۔ اجمیر شریف کے زمانہ طالب علمی میں آپ کی نمازوں کی کیفیت بیان کرتے ہوئے حافظ ملت مولانا عبد العزیز مبارکپوری علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں :” سلسلہ کے وظائف اور نماز با جماعت کے پابند تھے۔ خشیّتِ ربّانی کا یہ عالم تھا کہ نماز میں جب امام سے آیت ترہیب سنتے تو آپ پر لرزہ طاری ہوجاتا حتیٰ کہ پاس والے نمازی کو محسوس ہوتا تھا یہ طالب علمانہ مقدس زندگی کی کیفیات ہیں۔ اس سے آپ کی روحانیت کا اندازہ ہوسکتا ہے اور آپ کے مقامِ رفیع کا پتہ چل سکتا ہے۔

توکل علی اﷲ :

آپ کی حیات طیبہ کا طائرانہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ زندگی کے ہر موڑ پر اﷲ تعالیٰ پر توکل اور کامل بھروسہ جلوہ آراء نظر آتا ہے ۔ چشمِ تصور سے ذرا دیکھئے کہ فیصل آباد کا اجنبی اور مخالفانہ ماحول اور بریلی کے نامور شیخ الحدیث کا ایک چبوترے پر بیٹھ کردرسِ حدیث شروع کردینا،مخالفوں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مدرسہ اور پاکستان کی عظیم الشان مسجد کی بنیاد رکھ دینا۔ اپنوں، بیگانوں کی جانب سے سازشوں حتیٰ کہ قاتلانہ حملوں کے باوجود پایہئ ثبات میں لغزش نہ آنابغیر خدا پر توکل اور بھروسے کے کیا ممکن نظر آتا ہے؟

عشقِ مصطفی علیہ التحیہ و الثناء:

اس عقیدے پر پوری اُمت کا قطعی ، یقینی اجماع ہے کہ ایمان کی جان عشقِ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم ہے۔ تمام رشتوں، ناتوں، دوستیوں اور تعلقات سے بڑھ کر اگر سرکارِ دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم سے محبت نہیں تو ایمان نا مکمل ہے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:

مغزِ قرآں، روحِ ایماں ، جانِ دیں
ہست حُبِّ رحمۃ للعلمین

حضرت محدث اعظم علیہ الرحمۃ کے اخلاق و عادات کی سب سے نمایاں بات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے والہانہ محبت ہے۔ ان کے اس وصف ِ خاص کا اظہار صرف ان کی زبان ہی سے نہیں ہوتا تھا بلکہ یہ ان کے دل میں رچا ہوا اور رگ و ریشہ میں سمایاہوا تھا۔

اَلْحُبُّ ِﷲِ وَالْبُغْضُ ِﷲِ:

اﷲ کی رضا کی خاطر دوستی اور اسی کی خاطر دشمنی تکمیل ایمان کیلئے ضروری ہے ۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے:

مَنْ اَحَبَّ ِﷲِ وَ اَبْغَضَ ِﷲِ وَ اَعْطٰی ِﷲِ وَ مَنَعَ ِﷲِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ
جس نے اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی سے محبت کی ، اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی سے عداوت کی، اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی کو کچھ دیا اور اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کسی کو کچھ نہ دیا اس نے ایمان کو مکمل کرلیا۔

حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمۃ نے اس حدیث پاک پر یہاں تک عمل کیا کہ اﷲ اور اس کے پیارے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں سے تعلقات تو کجا عمر بھر مصافحہ تک نہ کیا۔ عمر کے آخری ایام میں حضرت سیدمعصوم شاہ نوری سے فرمایا: “شاہ صاحب ! میری دو باتوں کے گواہ رہنا۔ایک تو یہ کہ یہ فقیر حضور غوث پاک رضی اﷲ عنہ کا مرید اور غلام ہے دوسری یہ کہ اس فقیر نے عمر بھر کسی بے دین سے مصافحہ نہیں کیا۔”

صدارت نہیں سدا ردّ:

جس طرح آپ بد مذہبوں اور بے دینوں سے مصافحہ نہیں کرتے تھے ویسے ہی آپ ان کے جلسوں اور جلوسوں میں بھی شرکت سے گریز فرماتے تھے۔ ایک مرتبہ دیوبندیوں ، وہابیوں کا ایک وفد حضرت محدث اعظم علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے پروگرام کے مطابق ایک مخلوط مشترکہ جلسہ کی صدارت کیلئے آپ سے عرض کیا تو آپ نے فوراً جواب دیا: ” فقیر ایسے جلسوں کی صدارت نہیں کرتا بلکہ ان کا سداردّ کرتا ہے۔” اس پر وفد کے ارکان لاجواب ہوکر چل دیئے۔

اساتذہ و مشائخ:

الماس و یاقوت بے شک قیمتی ہوتے ہیں مگر الماس تراش کی تراش خراش انہیں کہیں سے کہیں پہنچادیتی ہے۔اسی طرح بڑے بڑے علماء کی علمیت و قابلیت ان کے اساتذہ کی مرہون منت ہے ۔ ذیل میں حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمۃ کے اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی پیش خدمت ہیں:

حضرت صدرالشریعہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ
حضرت حجۃ الاسلام مولانا شاہ محمد حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ
حضرت مفتیئ اعظم مولانا شاہ محمد مصطفی رضا خاں بریلوی علیہ الرحمۃ
حضرت خواجہ شاہ محمد سراج الحق چشتی صابری علیہ الرحمۃ
مولانا حاجی پیر محمد خان علیہ الرحمۃ
حکیم مولوی ذوالفقار علی قریشی علیہ الرحمۃ

علالت و آخری ایام :

شب و روز کی جاں گسل مصروفیات کا اثر حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمۃ کی صحت پر پڑا جس کے نتیجے میں آپ کی طبیعت بگڑنے لگی۔پہلے پہل تو آپ نے بالکل پرواہ نہ کی اور اسی ضعف و نقاہت کے عالم میں حسب معمول درس و تدریس ، وعظ و تقریر اور دعوت و ارشاد کا سلسلہ جاری رکھا۔ ٢٥ صفر المظفر ١٣٨١ھ/٨ اگست ١٩٦١ء کو عرسِ اعلیٰ حضرت کے موقع پر آپ جلسہ گاہ تک بڑی مشکل سے تشریف لائے۔ ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے ہزاروں تلامذہ و مریدین اور اکابر علماء و مشائخ آپ کی ناسازیئ طبع سے بہت مغموم اور سخت متفکر ہوئے۔

اسی عرس کے موقع پر حضرت مولانا عنایت اﷲ صاحب نے خدمت ِ اقدس میں عرض کیا کہ صاحبزادہ محمد فضل رسول کو دستارسجادگی عطا فرمائیں اور انہیں اپنا خلیفہ اور قائم مقام مقرر فرمائیں۔ فرمایا : “اچھا پگڑی لاؤ یہ کام بھی ہوجائے۔ اﷲ تعالیٰ ان کے درجات بلند کردے گاجس طرح حضرت صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی کے صاحبزادے کی دستار بندی پہلے ہوگئی تھی، وہ بھی درجات حاصل کرگئے”۔ چنانچہ بطور خلیفہ و جانشین حضر ت صاحبزادہ محمد فضل رسول کی دستار بندی تمام احباب کی موجودگی میں سنی رضوی جامع مسجد میں کی گئی۔

وصال شریف:

حضرت محدث اعظم پاکستان نے وصال شریف سے تقریباً چھ ماہ قبل اشارے ، کنایے میں اپنے وصال کا ذکر کرنا شروع کردیا تھا تاکہ احباب ہجر و فراق کے اس صدمے کو سہنے کیلئے ذہنی طور پر تیار ہوجائیں۔

وصال شریف سے تقریباً چھ ماہ قبل آپ نے خواب دیکھا جس میں اکابر اُمت، مشائخِ عظام ، حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں بریلوی قدس سرہ،، حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں بریلوی ، صدر الافاضل بدر المماثل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، مرشدِ برحق خواجہ شاہ محمد سراج الحق چشتی صابری اور دیگر پاکانِ اُمت علیہم الرحمۃ کی زیارت فرمائی۔ یہ خواب احباب و خدام سے بیان فرما کر ارشاد فرمایا:

” ان مشائخ عظام کی زیارت و ملاقات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ یہ فقیر خود ان سے جا ملے”۔

دمِ آخر آپ کے کان میں اذان دی گئی اور سورہ یٰسین شریف ، شجرہ قادریہ رضویہ، درود تاج اور قصیدہ غوثیہ پڑھا گیا۔ اسی عالم میں رات ایک بج کر چالیس منٹ پر اﷲ ہو کہتے ہوئے یہ آفتابِ علم و فضل جس کی نورانی کرنوں سے عالمِ اسلام برسوں منور ہوتا رہا، ہمیشہ کیلئے روپوش ہوگیا۔ انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔

یکم شعبان المعظم ١٣٨٢ھ / ٢٩ دسمبر ١٩٦٢ء کی شب کو سورج ڈوبا اور صبح ہوتے ہوتے دنیائے علم و حکمت میں اندھیرا پھیل گیا۔

غسل و جنازہ:

کراچی میں آپ کو غسل دیا گیا۔ غسل دینے والوں کے نام درج ذیل ہیں:

مولانا عبد المصطفیٰ الازہری ، مولانا محمد عمر نعیمی ، مولانا محمد محسن فقیہ شافعی ، مولانا محمد معین الدین شافعی ، مولانا عبد الحمید ، سیٹھ حاجی اسمٰعیل جمال ، حاجی صوفی اﷲ رکھا۔

بعد غسل آپ کو کفن پہنایا گیا، ظفر علی نعمانی صاحب نے کفن پر کلمہ طیبہ لکھا۔ علامہ عبد المصطفیٰ الازہری نے ” یا شیخ سیدعبد القادر جیلانی شیأاً ﷲ ” لکھا اور مولانا محمد معین الدین شافعی نے” یا غوث اعظم دستگیرما” لکھا ۔ حضرت محدث اعظم کی موجودگی میں ایک مرتبہ سرکار غوثِ پاک کی منقبت پڑھتے ہوئے یہ شعر پڑھا گیا :

عزیزوں کر چکو تیار جب میرے جنازے کو
تو لکھ دینا کفن پر نام والا غوثِ اعظم کا

آپ نے اسی وقت وصیت فرمائی کہ مولوی معین ! یاد رکھنا میرے کفن پر حضور آقائے کرم ، سرکار غوثِ اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا اسم گرامی ضرور لکھنا۔ چنانچہ آپ کی وصیت کو پورا کرتے ہوئے سیدنا غوثِ اعظم رضی اﷲتعالیٰ عنہ کا اسمِ گرامی کفن پر تحریر کیا گیا۔ جنازہ تیار کرکے آرام باغ لایا گیا۔ راستے میں حسبِ وصیت درود شریف، کلمہ طیبہ، نعت شریف، منقبت غوثِ پاک اور صلوٰۃ و سلام پڑھا گیا۔ نمازِ جنازہ کی امامت کے فرائض شہزادہ صدر الشریعہ حضرت علامہ عبد المصطفیٰ الازہری نے انجام دئیے۔ ہزاروں افراد جنازے میں شریک تھے۔ کراچی کے تقریباً تمام علماء کرام و مشائخ عظام موجود تھے۔ جن میں مولانا عبدالحامد بدایونی، مولانامحمد عمر نعیمی، مفتی ظفر علی نعمانی، پیرزادہ سید عبد القادر گیلانی سفیر عراق، مولانا شاہ ضیاء القادری ، مولانا قاری محمد محبوب رضا خاں اور مولانا عبد السلام باندوی قابل ذکر ہیں۔

نمازِ جنازہ کے بعد چہرہ انور کی زیارت کرائی گئی۔ بعدہ، تابوت میں رکھا گیا۔ اب “رضوی دولھا” کو ہزاروں باراتی بڑی شان و شوکت اور پیار و محبت سے کندھوں پر اٹھائے کراچی اسٹیشن تک لائے، راستہ بھر نعت خوانی کا سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں اسٹیشن پر صلوٰۃ و سلام ہوا پھر ہزاروں اشک بار آنکھوں نے اپنے محبوب مرشد و قائد کو رخصت کیا۔

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے:

فیصل آباد پہنچنے پر جنازہ اُٹھایا گیا اور ہزاروں افراد اشک بار آنکھوں کے ساتھ درود وسلام کی صداؤں میں مرکز اہلسنت جامعہ رضویہ کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اس جلوس میں علماء بھی تھے اور مشائخ بھی، مدرس بھی تھے اور محقق بھی، مریدین بھی تھے اور معتقدین بھی، ہم سبق رفیق بھی تھے اور شاگرد بھی، اپنے بھی تھے اور بیگانے بھی، چھتوں پر خواتین اور بچے بھی اس نورانی جلوس کا نظارہ کررہے تھے۔

انوار کی بارش:

سرکلر روڈ سے گزر کر جنازہ جب کچہری بازار میں داخل ہوا تو عشقِ رسالت کے جلوؤں نے اور ہی رنگ اختیار کرلیا۔اس کے اثرات نمایاں اور بہت واضح ہوگئے اور محسوس صورت میں نظر آنے لگے۔ ہوا یوں کہ تابوت مبارک پر انوار و تجلیات کی بارش ہر آنکھ کو صاف طورپر نظر آنے لگی۔ بچے، بوڑھے، جوان ہر قسم کے لوگ وہاں موجود تھے اور بڑے استعجاب کے عالم میں انوار کی اس بارش کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہے تھے۔ جب یہ بے مثال جلوس گھنٹہ گھر پہنچا تو یکایک اس نور نے دبیر چادر کی صورت اختیار کرلی اور سارا تابوت اس میں چھپ گیا۔ چمکیلے تانبے کے باریک پتروں کی طرح نور کی سنہری کرنیں اس طرح تابوت پر گر رہی تھیں کہ ہزاروں نے تعجب سے اس آسمانی رحمت کو دیکھا، نور کی اس لطیف اور محسوس دھند میں جب جنازہ چھپ گیا تو جنازہ اُٹھانے والوں کو پکار کر ایک دوسرے سے پوچھنا پڑا کہ تابوت کہاں گیا؟

چند لمحات یہی کیفیت رہی پھر تابوت کے پاؤں کی طرف سے کمان کی طرح نور اُڑا اورلوگوں کو دوبارہ سب کچھ نظر آگیا۔ اس واقعہ کے عینی شاہد ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ان میں اپنے ہی نہیں وہ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت کی ذات سے خوامخواہ اختلاف تھا۔

فقید المثال جنازہ:

حضرت صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول خلف اکبر حضرت محدث اعظم کی اجازت سے مولانا عبدالقادر احمد آبادی نے نمازِ جنازہ بعد ظہر پڑھائی۔ لاکھوں افراد پر مشتمل نمازِ جنازہ کے عظیم اجتماع کو دیکھ کر ہر مکتبِ فکر کے افراد نے اعتراف کیا کہ فیصل آباد کی ستر سالہ تاریخ میں کبھی اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا۔

آخری دیدار:

نمازِ جنازہ کے بعد جسد مبارک کو سنی رضوی جامع مسجد سے ملحق انجمن فدایانِ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے دفتر میں رکھ دیا گیا۔ تاکہ آخری زیارت سہولت سے ہوسکے۔ زیارت کرنے والے ایک دروازہ سے داخل ہوتے اور دوسرے دروازہ سے نکل جاتے۔ وصال فرمائے ہوئے دو دن اور دو راتیں گزرنے کے باوجود چہرہ مبارک کی تازگی کا عالم یہ تھا کہ پھولوں میں سجا ہوا چہرہ خود بھی پھول لگ رہا تھا۔ اس حسین اور دل نواز منظر کو جو دیکھتا، دیکھتا ہی رہ جاتا اور ہٹنے کا نام نہ لیتا، مجبوراً اسے ہٹا کر دوسروں کو زیارت کا موقع دیاجاتا، آخری دیدار کیلئے مشتاقوں کا ہجوم اتنا زیادہ تھا کہ اگر یہ سلسلہ صبح تک جاری رکھا جاتا تو بھی ختم نہ ہوتا۔ ناچار شام سواسات بجے تک چہرہئ مبارک دکھایا گیا اس کے بعد تدفین کیلئے لے جایا گیا۔

آخری آرام گاہ:

سنی رضوی جامع مسجد اور دارالحدیث کے درمیان واقع عارضی کمرہ جس سے درجہ حفظ کے طلباء کی درس گاہ کا کام لیا جاتا تھا۔ آپ کی وصیت کے مطابق آخری آرام گاہ بنا۔ ذکر و درود و سلام کی گونج میں آپ کا جسد مبارک یہاں لایا گیا۔ ہزاروں عقیدت مند اشکبار آنکھوں سے آخری زیارت کررہے تھے۔ حضرت صاحبزادہ قاضی محمد فضل رسول حیدر رضوی ، شارح بخاری علامہ غلام رسول رضوی، مولانامفتی نواب الدین اور حاٖظ محمد شفیع رضوی کی موجودگی میں مولانا عبد القادر ، مولانا معین الدین اور صوفی اﷲ رکھا قبر شریف کے اندر اترے اور آپ کے جسد اطہر کو رات ساڑھے سات بجے ہمیشہ کیلئے آخری آرام گاہ میں اُتارا۔

تلامذہ وخلفاء :

درخت اپنے پھل سے اور اُستاذ اپنے شاگردوں سے پہچانا جاتاہے ۔ یوں تو حضرت محدثِ اعظم کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے جو نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں، قصبوں دیہاتوں بلکہ بیرون ملک سے آپ کے درس کی شہرت سن کر حاضر خدمت ہوئے۔ حضرت محدثِ اعظم کے جلیل القدر تلامذہ میں سے چند کے اسماء
گرامی پیشِ خدمت ہیں:

مفسر اعظم مولانا ابراہیم رضا خاں بریلوی،
شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی،
اُستاذ العلماء مولانا علامہ سید جلال الدین شاہ صاحب،
اُستاذ العلماء علامہ محمد عبد الرشید جھنگوی،
نبیرہ اعلیٰ حضرت مولانا شاہ حماد رضا نعمانی میاں،
پیر طریقت حضرت مولانا پیر محمد فاضل نقشبندی،
اُستاذ العلماء حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی،
شمس العلماء علامہ مفتی محمد نظام الدین سہسرامی،
مفتیئ اعظم کراچی علامہ مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی،
شیر اہل سنت مولانا محمد عنایت اﷲ قادری رضوی،
مخدوم ملت علامہ سبطین رضا خاں بریلوی،
اُستاذ العلماء علامہ تحسین رضا خاں بریلوی،
ریحانِ ملت مولانا محمد ریحان رضا خاں بریلوی،
علامہ ابو الشاہ عبد القادر احمد آبادی،
شیخ الفقہ مولانا محمد شمس الزماں قادری رضوی،
اُستاذ العلماء مولاناصاحبزادہ عزیز احمد سیالوی،
اُستاذ العلماء مولانا معین الدین شافعی رضوی،
مجاہد ملت علامہ الحاج ابو داؤد محمد صادق قادری رضوی،
اُستاذ الاساتذہ حضرت علامہ مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی،
عالمی مبلغ اسلام مولانا محمد ابراہیم خوشتر صدیقی،
اُستاذ العلماء علامہ مفتی محمد حسین قادری رضوی،
شیخ الحدیث علامہ ابو الفتح محمد نصر اﷲ خان افغانی،
خطیبِ پاکستان مولانا محمد بشیراحمد رضوی وغیرہ۔

اولاد امجاد:

حضرت محدث اعظم کو اﷲ تعالیٰ نے چار صاحبزادے اور چھ صاحبزادیاں عطا فرمائیں۔ صاحبزادگان کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں:

(١) محمد فضل رسول
(٢) محمد فضل رحیم
(٣) محمد فضل احمد رضا
(٤) محمد فضل کریم

صاحبزادہ محمد فضل رحیم کا بچپن ہی میں انتقال ہوگیا تھا۔ جبکہ تینوں صاحبزادگان اور چھ صاحبزادیاں حضرت محدث اعظم کے وصال کے وقت بقید حیات تھیں۔

نام و نسب:

مصلح اہل سنت حضرت مولانا قاری محمد مصلح الدین صدیقی قادری جنہیں گھر کی بزرگ عورتیں پیار سے ”محبوب جانی” کہا کرتی تھیں۔ صبح صادق، بروز پیر ١١/ربیع الاول سن ١٣٣٦ھ سن ١٩١٧ء قندھار شریف ضلع نانڈھیڑ، ریاست حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے ۔ والد ماجد کا نام نامی غلام جیلانی تھا، جنہوں نے گھریلو تعلیم کے علاوہ حکومت دکن کے تحت امامت کا امتحان پاس کیا تھا۔ نہایت دیندار صوفی باصفا خطیب عالم تھے۔ اپنے وطن کے اندر قلعہ کی مسجد اور دیگر مساجد میں ٥٥/سال تک امامت و خطابت کے فرائض بحسن و خوبی انجام دیتے رہے پاکستان پہنچ کر ٢٥/ نومبر ١٩٥٥ء کو کراچی میں انتقال فرمایا اور میوہ شاہ قبرستان میں مدفون ہوئے ۔ علم و ادب کے قدرداں اور علماء و سلف کے جوہر شناس تھے۔ حافظ ملت علیہ الرحمہ سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔

مصلح اہل سنت کے آباء و اجداد شرفاء دکن میں سے تھے اور پشتہا پشت سے خدمت دین اور فروغ اسلام کے فرائض سر انجام دیتے آرہے تھے، شاہان سلف نے انہیں جاگیریں دے رکھی تھیں اس لیے ”انعامدار” کہلاتے تھے۔ جاگیریں ان کے معاش کا ذریعہ تھیں خاندانی شجرہ اس طرح ہے حضرت قاری مصلح الدین بن غلام جیلانی بن محمد نور الدین بن شاہ محمد حسین بن شاہ غلام جیلانی عرف شبر استاد (آپ فضیلت جنگ بہادر مولانا انوار اللہ خان کے استاذ عربی ہیں ) بن شاہ غلام محی الدین بن شاہ محمد یوسف بن شاہ محمد بن شاہ محمد یوسف۔

صدر الشریعہ کا فیضان علمی و روحانی :

مصلح اہل سنت کے مقدر میں اسلام اور سنیت کی عظیم خدمات لکھی تھیں ، اسی لحاظ سے رب تعالیٰ نے ان کی تعلیم و تربیت کے وسائل پیدا فرمائے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ بر صغیر ہندو پاک میں چودھویں صدی ہجری کے آخری ٧٥/سالہ دور کو خلفائے امام احمد رضا بریلوی بالخصوص صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی اور ان کے تلامذہ نے اسلاف کرام کے طریقہ پر تعلیم و تربیت سے بہرہ ور کرنے میں مثالی کارنامے انجام دیئے ہیں ۔

جنہیں سیراب کرنے بدلیاں رحمت کی آتی ہیں:

(حافظ ملت علیہ الرحمہ دارالعلوم معینیہ عثمانیہ کے دور میں صدر الشریعہ سے حصول علم فرمارہے تھے۔ اسی دور کی بات ہے) قندھار شریف ریاست حیدر آباد کے ایک بزرگ مولانا سید شاہ اسماعیل صاحب قبلہ خاندانی مرشد تھے، اس علاقے میں ان کے اہل ارادت کی خاصی تعداد موجود تھی سید صاحب ہر سال عرس خواجہ غریب نواز علیہ الرحمہ کے موقع پر ، پابندی سے اجمیر مقدس حاضری دیتے تھے۔ حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ سے بھی پیر صاحب قبلہ کے گہرے مراسم تھے۔ انہوں نے حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے درخواست کی کہ رمضان المبارک کے موقع پر قندھار شریف کے تعلقہ شہر میں کسی اچھے حافظ قرآن کو روانہ فرمائیں ۔ چنانچہ حضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اپنے شاگرد رشید ”حافظ ملت” کو قندھار روانہ فرمایا ۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے قندھار پہنچ کر صرف قرآن مجید نہیں سنایا بلکہ نہ جانے کتنے قلوب کی محرابوں کو بیداری فکر کی دولت عطا کردی ۔ قندھار شریف ، محراب سنانے کے بہانے حافظ ملت کی تشریف ارزانی کا سلسلہ پانچ سال یا اس سے زیادہ قائم رہا اور اگر ہم یہ کہیں کہ حافظ ملت سال میں ایک ماہ ایک ایسے روحانی پودے کی داشت و پرداخت کے لئے صرف کیا کرتے تھے۔ جسے آگر چل کر ”مصلح دین” اور ”مصلح ملت” بننا تھا تو غلط نہ ہوگا۔ اس کمسن بچے کے ضمیر میں قرآن عظےم کے نور کے ساتھ ساتھ اخلاق قرآن کی حلاوتیں کس طرح اتریں اسے خود قاری صاحب کی زبان سے سنئے:

”ہمارے خاندان میں ایک مولانا علیم الدین صاحب تھے ۔ ان کو میں قرآن کریم سنایا کرتا تھاتو انہوں نے کہا کہ میں باہر جارہا ہوں لہٰذا آپ ان (حافظ ملت حضرت علامہ مولانا حافظ عبدالعزیزمبارکپوری علیہ الرحمہ) کو قرآن کریم سنائیے ۔ میں ان کو قرآن کریم سنانے کے لیے گیا تو انہوں نے بڑی شفقت کا اظہار کیا اور بڑی اچھی اچھی باتیں کیں میں نے گھر آکر اپنی والدہ کو بتایا اور والدہ نے والد سے کہا ، آپ جائیے ایسے بزرگ اور شفیق آئے ہیں ، ان سے ملاقات کریں ۔ والد صاحب آئے اور ان سے بہت متاثر ہوئے اور کہا اپنی آخرت کی درستگی کے لیے میں نے اپنے بچے کو حفظ قرآن کی طرف لگایا ہوا ہے۔ آپ (حافظ ملت علیہ الرحمہ ) نے مشورہ دیا ، بچے کی تعلیم کے لیے دو چیزیں بہت ضروری ہیں یا تو اس شخص سے پڑھایا جائے جس کو خود غرض ہو یا وہ پڑھا سکتا ہے جس کو درد ہو اور باپ سے زیادہ غرض بھی کسی کو نہیں ہو سکتی اور باپ سے زیادہ درد بھی کسی کو نہیں ہوتا۔ بہتر یہی ہے کہ آپ خود پڑھائیں”

اندازہ ہوتا ہے کہ قاری مصلح الدین صاحب علیہ الرحمہ کی عمر اس وقت آٹھ یا نو سال رہی ہوگی ۔ اس وقت حضور حافظ ملت بھی جامعہ معینیہ اجمیر شریف میں مصروف درس تھے۔ اس پہلی ملاقات نے قاری مصلح الدین صاحب اور ان کے والدین کریمین کے دل میں حافظ ملت علیہ الرحمہ کی شفقت و مروت اور اخلاص و محبت کے وہ انمٹ نقوش ثبت کیے جو تاریخ کا ایک عظےم الشان دور بن کر ابھرے۔ وہ اس طرح کہ اس کم سن بچے کے تحفیظ قرآن کا سلسلہ حافظ ملت کی ہدایات کے مطابق خود اس کے والد کے ذریعہ شروع کرادیاگیا اور پانچ سال کے عرصے میں وہ بچہ حافظ قرآن بن گیا وہ کس طرح قاری صاحب خود فرماتے ہیں:

”سال بھر میں پانچ پارہ ناظرہ ، استاد صاحب پڑھادیا کرتے تھے ، اور والد صاحب مجھے وہ پانچ پارے یاد کرادیا کرتے تھے اور اگلے رمضان میں استاذ مکرم (حافظ ملت) وہاں سے آتے تھے وہ سن بھی لیا کرتے تھے اور اس میں جو غلطیاں ہوتی تھیں وہ درست بھی کرادیا کرتے تھے اس طرح پانچ سال میں حفظ کرلیا”

اس طرح ننھا مصلح الدین چودہ سال یا اس سے بھی کم عمر ہی میں حافظ قرآن بن گیا اور حافظ ملت نے اس کے سرپر دستار باندھی تکمیل حفظ کے بعد حضرت قاری صاحب پرائمری اسکول میں داخل کرادیئے گئے ۔ آپ اپنے والدین کے اکلوتے چشمہ و چراغ تھے ، اس لیے وہ لوگ انہیں آنکھوں سے اوجھل نہیں کرنا چاہتے تھے۔ مگر حافظ ملت جیسے روحانی اور عرفانی باغباں نے قاری صاحب کے باطن میں علوم دینیہ اور عرفان و حق شناسی کے جو بیج بوئے تھے اسے پروان تو چڑھنا تھا۔ اسکول کی تعلیم بھی قاری صاحب نے نہایت سرعت سے حاصل کی اور اپنی ذہانت اور ذکاوت سے دو دودرجات ایک سال میں طے کیے تا آنکہ جماعت ہفتم میں جا پہنچے۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی سرپرستی اور ہدایت کے زیر سایہ قاری صاحب نے جب تکمیل حفظ کلام اللہ کرکے درجہ ہفتم تک کی پرائمری تعلیم بھی پالی ، اور اس وقت تک سن شعور کی دہلیز تک پہنچ گئے تو انہوں نے قاری صاحب کو ان کے والدین سے اپنی روحانی اور علمی فرزندی میں پروان چڑھانے کے لیے مانگ لیا۔ اس واقعہ کو قاری صاحب کی زبان ہی سے ملاحظہ کیجئے :

”استاذ مکرم کا مسلسل اصرار رہا کہ جس طرح آپ نے اپنے لڑکے کو حافظ قرآن بنایا ہے اسی طرح اسے عالم دین بھی بنائیے۔ چونکہ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا تھا اس لیے باہر بھیجنے کے لیئے والدہ ماجدہ راضی نہ تھیں ۔ البتہ والد صاحب کچھ راضی تھے بہر حال قسمت میں لکھا تھا یہ دونوں حضرات راضی ہوگئے اور میں اپنی دینی تعلیم حاصل کرنے کیلئے مبارک پور اعظم گڑھ روانہ ہوا ۔ اس وقت استاذ مکرم حافظ ملت مولانا عبدالعزیز مبارکپوری (علیہ الرحمہ ) فارغ التحصیل ہوکر مبارک پور میں صدر المدرسین کے عہدے پر فائز تھے اور میں نے وہاں جاکر تعلیم حاصل کی اور اس تعلیم کا سلسلہ تقریباً آٹھ سال تک رہا ”


دستار بندی:

مصلح اہل سنت نے اپنی پوری تعلیم مبارک پور میں مکمل کی اور حافظ ملت کچھ روز کے لیے مبارک پور چھوڑ کر ناگپور تشریف لے گئے تو وہاں دورئہ حدیث پڑھ کر دستار فضیلت حاصل کی قاری صاحب کے انٹرویو میں ہے:

”اور یہیں سے فراغت حاصل کی البتہ دستار بندی اس وقت وہاں نہ ہو سکی ۔ اس لیے کہ ١٩٤٢ء میں گاندھی کا سینہ گرہ شروع ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے مدارس بھی بند رہے ۔ ٹرینیں بھی الٹ دی گئیں ۔ لائنیں بھی اکھاڑی گئیں ۔ آمد و رفت بہت دشوار ہو چکی تھیں اتفاق سے میں اس سے کچھ پہلے ہی اپنے گھر چلا گیا تھا ۔ تقریباً کئی مہینے یہ سلسلہ جاری رہا ۔ والد محترم نے ہمیں پھر دوبارہ جانے نہیں دیا اور کہا تم یہاں رہو۔ اسی عرصہ میں میری شادی ہوئی اور شادی کے بعد پھر معاش کی فکر لگی ۔ اتفاق سے استاذ محترم (حافظ ملت علیہ الرحمہ) مبارکپور سے کچھ اختلاف کی وجہ سے ناگپور تشریف لے آئے ۔ وہاں سے دورئہ حدیث جاری ہوچکا تھا ”

استاد مکرم نے خط لکھا کہ :

”تمہارے جتنے ساتھی ہیں سب واپس آچکے ہیں اور کچھ آنے والے ہیں ، بہتر یہی ہے کہ تم بھی یہاں آکر دورئہ حدیث کی تکمیل کرو اور اس کے بعد جہاں بھی تمہارے روزگار کا ارادہ ہو وہاں جا سکتے ہو”

چنانچہ میں ناگپور آیا اور وہاں تین چار مہینے درس حدیث کی تکمیل کی اس کے بعد دستار فضیلت کاجلسہ ہوا جو ١٩٤٣ء میں ہوا۔

والدہ کا انتقال اور ناگپور میں تقرری:

حضرت مصلح اہلسنت ناگپور سے دستار بندی کے بعد ابھی اپنے وطن نہیں گئے تھے بلکہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اور دیگر اساتذہ کرام کی خدمت ہی میں تھے کہ انہیں ان کی والدہ کی علالت کا ٹیلیگرام ملا اور وہ فوراً چل پڑے والدہ ماجدہ عرصہ سے علیل رہتی تھیں۔ ایک ماہ کے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا ۔ حضرت قاری صاحب مبارکپور سے ١٩٤٢ء میں آنے کے بعد ہی چونکہ ازدواجی بندھن سے منسلک ہوچکے تھے اور گھر میں ایک بیٹی بھی تولد ہوچکی تھی ۔ اس لیئے انہیں ذریعہ معاش کی فکر لاحق ہوئی۔ضعیف باپ اور اہل و عیال کے خیال سے انہوں نے حیدر آباد ہی کے اندر کوئی ملازمت تلاش کی مگر جس ماحول میں ان کی ذہنی و فکری اور علمی نشو و نما ہوئی تھی اس کے لحاظ سے دکن کا ماحول مختلف تھا۔

خود حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ بھی قاری صاحب کو بے حد پیار کرتے تھے اس لحاظ سے ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ حضرت سے قریب ہی کہیں رہ کر علمی مشاغل کو جاری رکھیں چنانچہ ان کی خواہش کے مطابق قدرتی طور پر ناگپور ہی میںقاری صاحب کے لیے ایک جگہ نکل آئی ، اس طرح وہ پھر حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ اپنے محسن و مربی کے قریب پہنچ گئے ، خود فرماتے ہیں:

”بہرحال ہم کوشش میں تھے کہ حیدر آباد دکن میں کہیں کوئی نہ کوئی سروس مل جائے لیکن اسی اثناء میں ناگپور میںجامع مسجد کی امامت و خطابت کی جگہ خالی تھی ، تو مفتی عبدالرشید خاں صاحب جو وہاں کے بانی تھے ادارے کے تو انہوںنے حافظ ملت سے کہا ”ان کو یہاں بلا لیجئے، وہ یہاں کے لیئے موزوں ہوں گے”۔ استاذ مکرم نے حیدر آباد دکن خط لکھا آپ جو کچھ بھی وہاں کوشش کررہے ہیں ، بہر حال کوشش کرتے رہیں ۔ البتہ یہاں ایک جگہ خالی ہے اور ہمارا خیال ہے کہ آپ یہاں آئیں گے تو آپ ہمارے قریب بھی رہیں گے۔ چنانچہ والد صاحب سے اجازت لے کر میں ناگپور گیا ۔ وہاں جانے کے بعد ایک جمعہ وہاں پڑھایا ، تو انہوں نے کہا یہ ٹھیک ہیں ہمارے لیے خوشی کی بات ہے کہ یہ یہاں پر امامت و خطابت کرتے رہیں۔ چنانچہ میں وہاں امام مقرر ہوا اور وہاں پانچ سال تک خطیب رہا”


جامع مسجد سکندر آباد کی خطابت:

اتحاد المسلمین کے عروج کا دور تھا سید تقی الدین صاحب اور صدر یار جنگ کے توسط سے قاری صاحب سکندر آباد مسجد کے خطیب مقرر ہوگئے شہر حیدر آباد کے نواحی شہر سکندرآباد کی اس جامع مسجد کے ہر چہار جانب آریہ سماجی متعصّب غیر مسلم کثرت سے آباد تھے اور مسلمان اقلیت میں تھے اس لیے وہاں اکثر ہندو مسلم فسادات ہوا کرتے تھے۔اس جامع مسجد کی بنیاد حضرت مولانا قاری عثمان علی شاہ قادری نے رکھی تھی اور مدتوں انہی کے خانوادہ کے علماء وہاں امامت کرتے آرہے تھے۔ تقسیم ہندوپاک کے زمانے میں دکن کے سیاسی افق پر بھی نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں اور نواب بہادر یار جنگ نے وہاں کے مسلمانوں کو متحرک کرنے کیلئے مجلس اتحاد المسلمین کی بنیاد رکھی تھی ۔ آج بھی اتحاد المسلمین پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی نمایاں تنظیم ہے ۔ قاری صاحب نے اس پر آشوب دور میں اپنی مجاہدانہ تقاریر کا سلسلہ شروع کیا ۔ مہاجر مسلمانوں کے لٹے پٹے قافلے حیدرآباد میں آکر پناہ لے رہے تھے۔ حیدر آباد دکن ایک آزاد مسلم ریاست تھی اس لحاظ سے مسلمان اسے اپنی ایک پناہ گاہ خیال کرتے تھے۔ قاری صاحب فرماتے ہیں :

”اتحاد المسلمین نے جو اپنا محاذ بنایا تھا، اس کے لحاظ سے خطباء بھی مقررین بھی سیاسی موضوع پر بولنے لگے تھے۔ چونکہ جوش تھا اور میں خود بھی بڑی پر جوش تقریر کرتا تھا، اور جمعہ کے خطبوں میں وزیر عبدالحمید خان بھی آیا کرتے تھے اور اطراف میں بڑی بڑی چھاؤنیاں تھیں وہاں کے بڑے بڑے عہدیداران و افسران بھی آیا کرتے تھے تو میں نے وہاں ڈیڑھ سال تک خطابت بھی کی اور وہاں حیدر آباد میں پڑھاتا بھی رہا ۔ پھر وہاں حیدر آباد کے خلاف ہنگامہ بھی ہوا ، ہنگامے کے وقت عجیب و غریب کیفیت تھی ”

سقوط حیدر آباد اور قاری صاحب کا سفر پاکستان:

سقود حیدر آباد سے قبل دکن کے مسلمانوں نے پولیس ایکشن کے نام پر کی گئی زیادتی کے جواب میں جو مدافعانہ قدم اٹھایا اس میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہندوستانی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے سات لاکھ مسلمان شہید ہوئے دور طالب علمی میں حضرت مفتی ظفر علی نعمانی صاحب حضرت قاری صاحب کے جگری دوست تھے۔ دونوں ایک دوسرے سے والہانہ تعلق رکھتے تھے۔ مبارک پور سے حافظ ملت نے جب ناگپور کا سفر کیا تو وہ اس وقت ناگپور بھی گئے ۔ وہ پاکستان پہلے ہی آچکے تھے سقوط حیدر آباد کے بعدحضرت قاری صاحب کو پاکستان بلوانے کے سلسلہ میں انہوں نے سلسلہ جسبانی (بہت محنت) کی جس کے نتیجہ میں قاری صاحب کراچی آگئے۔ قاری صاحب کے ذاتی انٹرویوکی روشنی میں سفر کی کچھ باتیں یہ ہیں ۔

سقوط حیدر آباد کے چار ماہ بعد ١٩٤٩ء میں بحری جہاز کے ذریعہ قاری صاحب کراچی پہنچے۔ پورٹ پر مفتی ظفر علی نعمانی صاحب نے ان کا استقبال کیا اور انہیں اپنے مدرسہ میں لاکر اتارا۔ اس کے ایک ماہ بعد سے قاری صاحب نے اخوند مسجد کی امامت و خطابت شروع کی ۔

پاکستان میں خطابت و تدریس:

اخوند مسجد کی خطابت کے دور میں ہی حضرت مولانا مفتی مظہر اللہ صاحب دہلوی کے نام سے آرام باغ میں دارالعلوم مظہریہ میں قاری صاحب نے تدریس بھی شروع کردی ۔ اس وقت حضرت مولانا عبدالحفےظ صاحب آگرہ صدر مدرس تھے قاری صاحب ان کے نائب کی حیثیت سے درس دیتے تھے۔ واہ کینٹ جامع مسجد کی خطابت سنبھالنے سے قبل تک آپ اس دارالعلوم سے وابستہ رہے ۔ واہ کینٹ سے واپس آکر آپ نے اخوند مسجد کی امامت سنبھال لی ۔ اس وقت دارالعلوم امجدیہ بن چکا تھا۔ کچھ عرصہ بعد امجدیہ سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی آخری عمر تک قائم رہی ۔

حضرت قاری صاحب دارالعلوم امجدیہ کے محض ایک مدرس ہی نہیں تھے بلکہ انہیں اس ادارے سے قلبی لگاؤ تھا، اپنی علالت کے زمانے میں بھی دارالعلوم ضرور جاتے تھے۔ ٢٨/اپریل کو انہیں جب ہارٹ اٹیک ہوا اور ڈاکٹروں نے آنے جانے پر پابندی عائد کردی تو قاری صاحب نے پہلے تو پندرہ روز کی پھر اس کے بعد ڈیڑھ ماہ کی رخصت حاصل کی ۔ مگر طلبہ کے تعلیمی نقصان کا خیال کرکے قاری صاحب نے دارالعلوم کے ارکان کو اپنا استعفیٰ نامہ پیش کردیا انتظامیہ نے اسے منظور نہیں کےااس وقت انہوں نے فرمایا:

”میں دارالعلوم آنے کے لئے تیار ہوں آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے طاقت دے اور صحت اچھی ہوجائے کیوں کہ گذشتہ دنوں میں بعض اوقات جب کبھی میری طبیعت خراب بھی رہتی تھی جب بھی میں دارالعلوم امجدیہ جاتا تھا کیونکہ یہ میرے پیرومرشد کا مدرسہ ہے ”

بیعت:

حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ نے اپنی پوری زندگی کو حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ہدایات کے مطابق استوار کیا ۔ ابتدائی تعلیم سے لے کر تکمیل دورہ حدیث تک اور روحانی میدان میں داخل ہونے کے لئے بھی ان کے مرشد اولین حافظ ملت ہی تھے وہ حافظ ملت کے سانچے میں ڈھل جانا چاہتے تھے۔ دوسری جانب حضور حافظ ملت کو ان سے اس قدر والہانہ پیار تھا کہ وہ انہیں اپنے مربی و مقتداء اور مرشد کامل کے دامن سے بلا واسطہ مربوط کرنا چاہتے تھے۔ قاری صاحب فرماتے ہیں :

”میری عمر تقریباً ٢١/سال یا اس سے کچھ کم تھی ، اس وقت میں ہدایہ کا امتحان دے چکا تھا، استاذ مکرم (حافظ ملت) سے ہم نے کہا کہ حضرت ہمیں مرید بنادیجئے ، تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے میں وقت پر تمہیں لے چلوں گا۔ جیسے ہی امتحان سے فارغ ہوئے تو مجھے اور میرے ساتھ مولانا سید عبدالحق جو انڈیا میںپیر طریقت کے نام سے مشہور ہیں ، ہم دونوں سے کہا کہ تم لوگ تیار ہوجاؤ میں تمہیں لے چلتا ہوں صدر الشریعہ سے بیعت کرنے کے لئے چنانچہ راستہ میں ہمیں ، پیر کے ساتھ کیا کرنا چاہیے بتاتے رہے مغرب کے بعد گاڑی پہنچی ۔ حضرت (صدر الشریعہ ) سے ملاقات ہوئی ۔ حافظ ملت نے حضرت سے عرض کی کہ میں ان کو سلسلہ میں داخل کرنے کے لئے لایا ہوں ، حضرت نے فرمایا ٹھیک ہے ، عشاء کی نماز کے بعد حضرت نے ہمیں اپنی غلامی میں لے لیا، یہ تقریباً ١٣٥٨ھ کا واقعہ ہے”

اس طرح حضور حافظ ملت نے قاری صاحب اور مولانا سید عبدالحق صاحب گجہڑوی کو گھوسی ”قادری منزل” لے جاکر خود حضرت صدر الشریعہ بدر الطریقہ علامہ حکیم ابو العلاء امجد علی قادری رضوی قدس سرہ کے دست مبارک پر بیعت کرایا ، قاری صاحب کے شجرہ شریف پر شعبان ١٣٥٨ھ تحریر ہے۔

سلسلہ بیعت کے علاوہ حافظ ملت علیہ الرحمہ کی کرم فرمائیوں سے ان حضرات نے حضور صدرالشریعہ علیہ الرحمہ سے بخاری شریف کی آخری حدیث کا سبق بھی پڑھا اور شرف تلمذ حاصل کیا۔ اپنے ان محبوب تلامذہ کو صدر الشریعہ علیہ الرحمہ سے شرف تلمذ دلانے کے لئے بھی حافظ ملت نے ان کے ساتھ گھوسی کا سفر فرمایا۔

خلافت:

جس ہونہار بچے نے کمسنی میں حافظ ملت علیہ الرحمہ کے ہاتھوں علم کی چاشنی پالی تھی اور انہی کی زیر تربیت مبارکپور میں علوم اسلامیہ کی آگہی میںلگا ہوا تھا۔ شعور کی پختگی کے ساتھ اس میں توجہ الی اللہ اور سلوک کی راہ پر چلنے کا اشتیاق خود بخود ابھرنے لگا۔ چنانچہ بیعت کے بعد ایک مرتبہ حضور دصدر الشریعہ علیہ الرحمہ مبارکپور تشریف لائے تو قاری صاحب نے خدمت میں التجا کی کہ مجھے کچھ وظیفہ وغیرہ تعلیم فرمائیں۔

حضور صدر الشریعہ نے مسکرا کر جواب دیا:

”یہ جو کچھ کام (حصول علم دین) آپ کررہے ہیں آپ کے لئے یہی سب سے بڑا وظیفہ ہے ۔ ان شاء اللہ آگے چل کر میں آپ کو وظیفہ بتاؤں گا”

ناگپور کے زمانہ خطابت میں حضرت قاری صاحب کو اپنے پیرومرشد سے ملاقات کے مواقع ملتے رہے اور وہ اپنی روحانی ارتقائی منازل پر گامزن رہے۔ جامعہ رضویہ کا سالانہ اجلاس ہوا۔ حضرت صدر الشریعہ کی تشریف آوری ہوئی ۔ پروانوں کی بھیڑ میںحضرت قاری صاحب نے بھی قدمبوسی کا شرف پایا ۔ اختتام جلسہ کے بعد حضرت چھلواڑہ کے لئے روانہ ہوئے اور قاری صاحب کو بھی ہمراہ چلنے کا حکم فرمایا ۔ وہاں پہنچ کر جناب حاجی عبدالقادر صاحب کے دولت کدہ پر بزم نعت پاک کا انعقاد ہوا۔ حضور صدر الشریعہ کے جلو میں حضرت مولانا اشرف علی قادری اور مولانا نثار احمد مبارکپوری بھی موجود تھے۔ حب رسول کی سرمستی کا عالم تھا۔ لوگوں پر کیف و سرور چھایا ہوا تھا اور آنکھیں نم تھیں ۔ نعت خواں حضرات حضور سرور عالمیان محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں قصائد پڑھ رہے تھے اور مجلس پر وجد طاری تھا۔ اتنے میں حضرت قاری صاحب اپنی جگہ سے اٹھ کر پیرومرشد کے روبرو پہنچے اور عرض گزار ہوئے کہ سرکار ! آپ کے وسیلہ سے حضرت جامی علیہ الرحمہ کے اشعار کا سہارا لے کر میں بھی بارگاہ رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں ۔

پیرو مرشد نے اجازت دے دی ، پھر کیا تھا حضرت قاری صاحب نے اپنے محبت و عقیدت بھرے لہجے میں

 

غوث اعظم بمن بے سرو ساماں مددے
قبلہ دیں مددے کعبہ ایماں مددے


عشق رسول کے سوزو گداز نے قاری صاحب کی آواز کو تیرونشتر بنادیا تھا۔ ہر سینہ چھلنی اور ہر قلب بے قرار ہو اٹھا حضرت خود بھی روئے اور قاری صاحب نے بھی ہچکےاں بھر کر نعت نا تمام چھوڑ دی ۔ حضور صدر الشریعہ یہ دیکھ کر اپنی مسند سے اٹھے اور قاری صاحب کو بٹھالےا اور اسی روز اپنی خلافت سے سرفراز کیا۔ حضرت قاری صاحب کہنے لگے حضرت ! میں اس لائق نہیںہو ںیہ بوجھ بھلا میںکےسے برداشت کر سکتا ہوں ، فرمایا! جس کا کام ہے وہی اٹھائے گا۔ یہ واقعہ ١٩٤٦ء کا ہے ۔ اس وقت حضرت قاری صاحب کی عمر تقریباً ٢٩/سال تھی ۔

اس کے علاوہ آپ کو شہزادہ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند مصطفی رضا خاں صاحب بریلوی قدست اسرار ہم نے ١٣٧٦ھ میں اپنی خلافت سے سرفراز کیا ۔ نیز ضیاء الامت حضرت مولانا ضیاء الدین صاحب مدنی خلیفہ امام احمد رضا قادری علیہ الرحمہ مقیم مدینہ منورہ کی طرف سے بھی حضرت قاری صاحب قبلہ کو سلسلہ قادریہ ، رضویہ ، سلسلہ سنوسیہ سلسلہ شاذلیہ ، سلسلہ منوریہ سلسلہ معمریہ اور سلسلہ اشرفیہ کی اجازت و خلافت سے نوازا گیا۔

حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی اور مصلح اہلسنّت:

اپنی مودبانہ شرست (سادہ طبیعت) اور حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی اعلیٰ تربیت کے طفیل قاری صاحب کو شیخ العرب و العجم حضرت علامہ ضیاء الدین احمدمدنی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں بڑا قرب حاصل تھا، بلکہ وہ ان کے فرزند کی طرح تھے۔ قاری صاحب مدینہ طیبہ حاضری کے دوران مسجد نبوی شریف کے بعد سب سے زیادہ وقت حضرت کی خدمت میں دیتے اور حضرت کی خانقاہ ہی میں قیام کرتے اور خود حضرت کا یہ عالم تھا کہ وہ بھی حضرت قاری صاحب کو بہت پیار کرتے تھے اور مجلس ہوتی تو قاری صاحب سے زیادہ نعت سماعت فرماتے تھے۔ مدینہ طیبہ کی ملاقات کے دوران قاری صاحب نے راقم الحروف کو بتایا کہ حضرت ضیاء الملت علیہ الرحمہ اپنے کرم خاص سے فرماتے ہیں کہ میرے تمام مریدین آپ کے ہیں


واہ کینٹ کی خطابت:

پاکستان کے اکابر علماء اہلسنت کی نگاہ میں حضرت قاری صاحب کی کتنی وقعت اور قدرومنزلت تھی اس کا اندازہ لگانے کے لئے ایک واقعہ حاضر خدمت ہے ۔ علامہ عبدالحامد بدایونی محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد لائلپوری ، حضرت مولانا عارف اللہ شاہ صاحب اور حضرت پیر صاحب دیول شریف ، غزائی دوراں علامہ احمد سعید کاظمی ، پیر طریقت علامہ سید قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین اہلسنت کی ٹھوس بنیادی خدمات کے لئے آپ پر بے حد اعتماد کرتے تھے۔

واہ کینٹ کی جامع مسجد پاکستان میں بڑی مرکزی مساجد میں شمار ہوتی ہے جہاں بد مذہب گھسنے کی کوششیں کرتے رہے۔ ایک مرتبہ وہاں کے لئے امام کا تقرر ہونے والا تھا، جس کے لئے بڑی تعداد میں امیدوار تھے ۔

اس سلسلہ میںحضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ نے قاری صاحب کو ٹیلی گرام بھجوایا کہ آپ اخوند مسجد میں کسی کو اپنی جگہ رکھ کر واہ کینٹ مسجد امامت کےلئے انٹرویو میں ضرور تشریف لے جائیں ، دوسری طرف سے حضرت مولانا عارف اللہ شاہ صاحب اور پیر صاحب دیول شریف نے بھی اسی مقصد کے لئے قاری صاحب کو ٹیلی گرام بھیجے ۔ بعد میں محدث اعظم پاکستان نے قاری صاحب کو اس بارے میں خط بھی تحریر فرمایا۔ بہر حال قاری صاحب نے اس معرکہ کو کسی طرح سر کیا اور صرف ڈیڑھ سال کے قلیل عرصے میںکتنی مقبولیت حاصل کی اور لوگوں کے دلوں میں کےسا مقام پیدا کیا کہ اس کے بعد جب انہیں اپنی کچھ ذاتی دشواریوں کے باعث وہاں کی خطابت سے ہٹنا پڑا تو وہاں کے لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے تھے اور قاری صاحب کی راہ میں آنکھیں بچھاتے تھے۔ فیکٹری کی اس شاندار جامع مسجد میں ائمہ کو مسجد کمیٹی کے لوگ خود ہی تقریرکا موضوع دیتے تھے اور ائمہ کو ان ہی موضوعات پر تقریر کرنی ہوتی تھی ۔ حضرت قاری صاحب کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ ہر موضوع کو عشق رسول ، اور محبت مصطفی کے سانچے میں ڈھال لیا کرتے تھے اور قرآن و احادیث کے حوالوں میںجب درد و سوز بھری آواز سے نعت حبیب پڑھتے تھے تو سننے والوں پر وجدانی کیفیت طاری ہوجایا کرتی تھی ۔

وہاں تقرری سے لے کر سبکدوشی تک کے واقعہ کو قاری صاحب خود بیان کرتے ہیں :

”ان حضرات کا اصرار تھا کہ آپ وہاں خو دجائیں ۔ چنانچہ میں وہاں پہنچا ، بارش بڑی شدید تھی ۔ بہر حال شام کے وقت میں وہاں پہنچا اور اس وقت مولانا عارف اللہ صاحب نے گاڑی کا بندوبست کیا اور ہم رات کو واہ کینٹ پہنچے اور وہاں رات کو سرکاری بنگلے میں قیام ہوا اور دن میں پھر وہاں پہنچے ۔ بہر حال یہ کہ پہلی تقریر مفتی لدھیانوی کی اور اس کے بعد دوسری تقریر میری ہوئی ۔ اس کے علاوہ اور تقریریں بھی ہوئیں اور اس کے بعد جو کمیٹی نے فیصلہ کیا ۔ زیادہ میرے حق میں دیا کہ آپ کو بحیثیت خطیب کے یہاں رکھا جاتا ہے ۔ چنانچہ میں ڈیڑھ سال تک خطیب رہا اور مغرب کے بعد درس قرآن ہوتا تھا اور صبح درس حدیث ہوا کرتا تھا۔ لوگ کثرت سے حاضر ہوا کرتے تھے اور پانچ دن کی محنت سے فیکٹری کا دیا ہوا موضوع جو ہوتا تھا۔ اس موضوع پر میں پوری تیاری کر کے آتا تھا۔ تو چنانچہ جب میں واہ کینٹ میں تھا، اجتماع بڑھتا رہا، چنانچہ حکومت کو مجبوراً ٣٥/ہزار کے شامےانے خریدنے پڑے اور بہت کافی انہوں نے انتظام کیا اور تقریباً مسجد بھری ہوتی تھی ۔ تقریباً ١٨/یا ١٩/ ہزار کا مجمع ہوا کرتا تھا اور ڈیڑھ سال کے بعد ہم پھر واپس اخوند مسجد آگئے ۔ کچھ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے لوگ دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے”

 

زبان اہل دل سے بات جو باہر نکلتی ہے
تو لگتا ہے دلوں پر حیدری شمشیر چلتی ہے (بدر)


لائیں کہاں سے دوسرا تم سا کہیں جسے؟:

میمن مسجد میں عرس حامدی کی تقریب تھی ، بریلی شریف سے حجۃ الاسلام کے پوتے حضرت مولانا اختر رضا خاں ازہری مدظلہ العالی بھی آئے ہوئے تھے قاری صاحب نے ”روح اور موت” کے عنوان پر تقریر کی ۔ رات گزری دوسرا دن آیا ظہر کی امامت کرکے دولت خانے میں گئے تاکہ فاتحہ غوث الاعظم کی محفل میں شرکت کے لئے تیاری کریں ۔ اچانک دل کا دورہ پڑا اعزہ فوراً علاج کے لئے شفاء خانے لے کر چلے۔ مگر شافی حقیقی نے وہاں پہنچنے سے قبل ہی اپنے قرب میں بلالیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون (بروز چہار شنبہ ساڑھے چار بجے دن ٧/جمادی الثانی ١٤٠٣ھ/ ٢٣/مارچ ١٩٨٣ء)

دوسرے روز ساڑھے دس بجے دن کم و بیش تیس ہزار مسلمانوں نے نماز جنازہ ادا کی جس کی امامت حضرت علامہ اختر رضا خاں قادری بریلوی جانشین مفتی اعظم ہند مدظلہ العالی نے فرمائی ۔ حکومت پاکستان نے آپ کے اعزاز میں کھوڑی گارڈن کا نام تبدیل کرکے آپ کے نام پر مصلح الدین گارڈن رکھا۔

کراچی میں حضرت قاری صاحب علیہ الرحمہ سیدنا امام احمد رضا قدس سرہ کے مشن کے مبلغ تھے۔ آج ان کے روضے کا گنبد ، بریلی شریف کے رضوی گنبد کا مثنی اہل محبت کی نگاہوں کا نور بنا ہوا ہے ۔ حضرت مصلح اہلسنت نے اپنی نیابت و خلافت کا باقاعدہ اعلان اپنی حیات ہی میں پنج شنبہ ٢٧/ جمادی الثانی ١٤٠٢ھ /٢٢/اپریل ١٩٨٢ء عشاء کی نماز کے بعد بمقام میمن مسجد مصلح الدین گارڈن ، بہت سے علماء مشائخ کی موجودگی میں ، اپنی روانگی عمرہ سے قبل کی تقریب سعید میں اپنے داماد حضرت مولانا سید شاہ تراب الحق قادری دامت برکاتہم العالیہ کے حق میں فرمادیا تھا اور انہیں خلافت نامے اور دستار سے سرفراز کردیا تھا۔ انتقال کے بعد سوئم کی فاتحہ کے موقع پر اس کی تجدید کے طور پر حضرت علامہ اختر رضا قادری قبلہ نے شاہ صاحب کی دستار بندی فرمائی اور قاری صاحب علیہ الرحمہ کے فرزند مصباح الدین کو ان کے سپرد کیا ۔ حضرت مصلح اہلسنت کے وصال پر جناب راغب

مراد آبادی نے تاریخ وفات لکھی

خوشا مصلح تھے قاری مصلح الدین
ہوئے دنیا سے رخصت سن کے یاسین
یہ تاریخ وفات ان کی ہے راغب
”تھے جان عصر قاری مصلح الدین” ٣ ٠ ٤ ١ ھ

حضرت مصلح اہلسنت علیہ الرحمہ نے ١٢/ حج کیے پہلا حج ١٩٥٤ء میں کیا اور ١٩٧٠ء میں سرکارغوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے دردولت پر بغداد شریف حاضری دی اور اپنا دامن شوق مرادوں سے بھرا۔

ازواج اور اولاد:

آپ کا پہلا نکاح والدین کریمین کی مرضی سے مبارک پور دارالعلوم اشرفیہ سے فراغت کے بعد ٢٤/ سال کی عمر میں ہوگیا تھا۔ اہلیہ محترمہ ٢/صاحبزادیاں چھوڑ کر انتقال کر گئیں ۔ ٣٠/سال کی عمر میں دوسرا نکاح جناب صوفی محمد حسین صاحب عباسی کی صاحبزادی سے ہوا۔ رب تعالیٰ نے حضرت قاری صاحب کو چار صاحبزادیاں اور تین فرزند محمد صلاح الدین ، محمد مصباح الدین ، محمد معین الدین عطا کیے۔ (اسعدھم اللہ تعالیٰ)

کہتی ہے ان کو خلق خدا غائبانہ کیا کیا:

حضرت مصلح اہلسنت نے دنیا میں اپنا مہد سے لحد تک کا وقفہ پور اکرلیا ، اب ہم لوگوں میں ان کی یادیں ان کے تذکرے اور کارناموں کے نقوش باقی ۔ لوگ زبان خلق کو نقارہ خدا کہتے ہیں ۔ حضرت مصلح اہلسنت کی ذات و صفات اور ان کے اخلاق و کردار کے بارے میں علماء مفکرین اور اہل دین و دیانت کیا کہتے ہیں ۔ اس آئینے میں ان کی گرانقدر شخصیت کو دیکھنا آسان ہے ۔ اس لئے ہم ”عرفان منزل ” کے ”مصلح الدین نمبر” سے کچھ اقوال منتخب کرتے ہیں

 

زر بکف ، گل پیرہن رنگین قباء آتش بجام
ایک قطرہ سو طرح سے سرخرو ہوکر رہا


٭۔۔۔۔۔۔ وہ حضرت مولانا قاری مصلح الدین صاحب ، اسم بامسمی ہیں۔ (حضرت شیخ ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ دنیا چند لوگوں کی وجہ سے قائم ہے اور ان میں سے ایک قاری مصلح الدین صدیقی ہیں۔ (حضرت شیخ ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ اگر کسی کو نیک طالب علم دیکھنا ہو تو مصلح الدین کو دیکھے، مصلح الدین میرا بیٹا ہے ۔(حافظ ملت محدث مبارکپوری علیہ الرحمہ )
٭۔۔۔۔۔۔ آپ کی ذات گرامی ایسی نہیں تھی جسے باآسانی فراموش کیا جاسکے ، یا اعتداد زمانہ ان کی یاد قلوب و اذہان سے محو کر سکے ۔ اس لئے کہ آپ صرف عالم ہی نہیں بلکہ عالم با عمل تھے۔ (حضرت علامہ تقدس علی خاں علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ انہوں نے مسلمانوں کو اپنی عملی زندگی کے ذریعہ اسلاف کی تعلیمات کے مطابق یہ درس دیا کہ وہ دین پر سختی سے قائم رہیں ۔ (علامہ مفتی وقار الدین علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ مختصر سی ملاقات ہوئی تھی دیکھنے سے علماء سلف کی یاد تازہ ہوگئی ۔( مولانا فیض احمد فیض ، گولڑہ شریف ، مصنف مہر منیر)
٭۔۔۔۔۔۔ وہ ایک عاشق رسول تھے تقویٰ عبادت اور ریاضت یہ تمام خوبیاں (ان میں) بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ (علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ اپنے معمولات کو انہوںنے خاص ترتیب سے رکھا ہوا تھا اور وہ ان پر تقریباً آخری دم تک قائم رہے۔ (علامہ عبدالمصطفیٰ ازہری علیہ الرحمہ)
٭۔۔۔۔۔۔ (انہوں نے ) اپنے پیچھے اہلسنت کا ایک فیض و تربیت یافتہ عظیم قافلہ چھوڑا ہے جو ان کی پوری زندگی کا سرمایہ ۔ (مولانا مشاہد رضا خان قادری علیہ الرحمہ )
٭۔۔۔۔۔۔ وہ کبھی بھی بدمذہبوں اور بد عقیدہ افراد کے میل جول کو قطعاً پسند نہیں فرماتے تھے بلکہ ملنے جلنے سے بھی پرہیز فرماتے تھے۔ (ظفر علی نعمانی)
٭۔۔۔۔۔۔ قابل رشک ہے وہ شخصیت جس کی ہم نشینی خدا و رسول  کی محبت سے سرشار کردے۔ (علامہ عبدالحکیم شرف قادری لاہور)
٭۔۔۔۔۔۔ آپ کی ذات گرامی علماء اورصوفیائے کرام میں خاص توجہ اور عقیدت و محبت کا مظہر تھی جسے بھی آپ کی صحبت اور محبت میسر آئی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گرویدہ اور شیدائی بن کر رہ گیا ۔ (مولانا سید شاہ تراب الحق قادری )

آزادی کی بنیاد ڈالنے والا سب سے بڑا مجاہد جس کو تاریخ دانوں نے بُھلا دیا، مؤرّخین نے جس کے ساتھ انصاف نہیں کہا، لکھنے والوں نے جس کے ساتھ عدل نہیں کیا۔ وہ آپ جانتے ہیں کون ہے جس نے آزادی کا سب سے پہلا پتھر رکھا؟ جس نے آزادی کا سب سے پہلے سنگ بنیاد رکھا؟ وہ مرد مجاہد حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ تھے۔

ہندوستان کی سر زمین پر فرنگی نصرانیوں کی آمد عہد جہانگیری میں شروع ہوئی جبکہ اس کیلئے اکبری دو رمیں راہ ہموار ہوچکی تھی۔ دولتِ ہندوستان کی طمع نے برطانیہ کے انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کو ایشیاء کے اس خطہ برصغیر کی طرف متوجہ کیا۔ انگریزوں نے تجارت کی آڑ میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی اور اپنے مفادات کے اہداف کا دائرہ وسیع کرتے کرتے پہلے جنوبی ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کرنیکی کوشش کی ، ہندوستان کے مغل فرمانرواؤں کی خاموشی سے فائدہ حاصل کرتے ہوئے دیگر ریاستوں کے حکمرانوں (جن میں ہندواور مسلمان دونوں شامل ہیں) سے دوستی شروع کی۔ ولی صفت مغل فرمانروا حضرت مجدد مأتہ اثنا عشر محی الدین اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمۃ کے وصال کے بعد انگریزوں کی ریشہ دوانیوں اور مکاریوں کا دائرہ وسیع ہوگیا، اورنگزیب عالمگیر علیہ الرحمۃ کے جانشینوں کی کمزوری کے باعث مغل سلطنت سمٹنے لگی دیگر ہندو راجاؤں اور مسلمان نوابوں کو انگریزوں نے آپس میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار کردیا اور ہر دو فریق مسلمانوں اور ہندؤوں کو جدید وسائل کے لالچ میں مکارانہ دوستی اختیار کرنے کی تلقین کرنے لگے ۔ ایسے ہی موقع پر اللہ تعالیٰ نے سلطان حیدر علی علیہ الرحمۃ ، سلطان ٹیپو شہید علیہ الرحمۃ اور سراج الدولہ علیہ الرحمۃ کو اسلامیانِ برصغیر کی قیادت عطا کی لیکن نظام دکن، راجہ پونا، نواب اراکاٹ اور مغلوں کی عدم توجہ ، سلطنتِ عثمانیہ کے اپنے مسائل اور بعض غدارانِ وطن (میر جعفر، میر صادق وغیرہ) کے باعث پورے ہندوستان پر انگریزوں کا غاصبانہ قبضہ ہوگیا ازاں بعدہندوستان کے وسائل سے اہل ہندوستان کو محروم رکھا جانے لگا، ظلم و ستم سے عوام و خواص، نوابین و حکما ء اور دانشور وعلماء کوئی بھی محفوظ نہ رہے۔ سلطنت مغلیہ کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو ایک صبح ناشتے میں ان کے شہزادگان کے کٹے ہوئے سر پیش کئے ۔ ایسے موقع پر اسلامیانِ ہندوستان کی قوت کو ایک مرکز پر مجتمع کرنے کیلئے اور روح جہاد پھونکنے کیلئے علماء اہلسنّت کا ایک گروہ بطلِ حریت امام المتکلمین علامہ فضل حق خیر آبادی کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف صف آراء ہوا۔ ہندو فطرتاً بزدل واقع ہوئے ہیں لہٰذا ان سے کسی خیر کی توقع نہ تھی اس لئے مسلمانوں میں جذبہ حریت بیدار کرنے کیلئے علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ نے انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ ہندوستان کے تمام اجلّہ و مقتدر علماء کرام نے اس کی تائید و توثیق فرمائی۔

بطلِ حریّت، مجاہد ملت، میرکاروان جنگِ آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی عمری حنفی ماتریدی چشتی ١٢١٢ھ بمطابق ١٧٩٧ء میں اپنے آبائی وطن خیر البلاد خیر آباد میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد مولانا فصل امام خیر آبادی علماءِ عصر میں ممتاز اور علوم عقلیہ کے اعلیٰ درجہ پر سرفراز تھے، حضرت علامہ کے دادا حضرت مولانا راشد ہرگام پور سے خیر آباد تشریف لا کر سکونت پذیر ہوئے تھے۔ (سیرت علامہ فضل حق خیر آبادی، ماخوذ از خون کے آنسو، ص٦، تذکرہ علماء ہند، ص١٦٤)

تمام علوم عقلیہ و نقلیہ اپنے والد حضرت فضل امام خیر آبادی سے حاصل کئے اور حدیث شریف محدِّث شہیر شاہ عبدالقادر محدّث دہلوی سے دہلی میں حاصل کی (مقدمۃ الیواقیت المہریہ، ص٤)، چنانچہ حضرت علامہ نے ١٢٢٥ھ بمطابق ١٨٠٩ء تیرہ سال کی عمر میں تمام مروجہ علوم عقلیہ و نقلیہ کی تکمیل کی اور چار ماہ کچھ روز میں قرآن شریف حفظ کیا۔ (سیرت علامہ فضل حق خیر آبادی، ص١٢۔ مقدمۃ الیواقیت المہریہ، ص٤)

علامہ مشتاق احمد نظامی لکھتے ہیں: مولانا فضل حق نے آنکھ کھولی تو گرد و پیش علم و فضل، عمارت و ریاست کو جلوہ گر دیکھا۔۔۔۔۔۔جس وقت علامہ فضل خیر آباد سے دہلی پہنچے تو ایک سے بڑھ کر ایک باکمال نظر آئے، مُفسِّرین، محدِّثین، فقہاء، فلاسفہ، اولیاء، شعراء۔۔۔۔۔۔ جس طبقے پر نظر ڈالئے تو سب ہی موجود تھے، آپ کے والد ماجد مکان کے علاوہ ہاتھی اور پالکی پر بھی دربار جاتے وقت ساتھ بٹھا کر درس دیتے تھے، اور صغر سنی ہی سے معقولات میں اپنے جیسا یگانہ روزگار بنا لیا تھا اور منقولات کی تحصیل کے لئے شاہ عبدالقادر مُحدِّث رحمۃ اللہ علیہ، شاہ عبدالعزیز مُحدِّث رحمۃ اللہ علیہ کی درس گاہ تک پہنچا دیا۔ (سیرت علامہ فضل حق خیر آبادی، ص١٢)

حضرت کے علمی مقام اور ان کی علمی جلالت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ اپنے معاصرین میں بی نظیر اور حد درجہ ممتاز تھے۔ آپ تقدیس الٰہی جلّ و علا اور ناموسِ رسالت علیہ التحیۃ و الثناء کے محافظ اور اسلام اور اہلِ اسلام کے خیر خواہ اور اہلسنّت کے ان علماء میں سے تھے جن کا نام ”تاریخ ہند” میں ہمیشہ سنہری حرفوں سے لکھا جائے گا۔

علامہ محمد فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ میں ایمانی غیرت و حمیت دیگر علماء کے مقابلہ میں بام عروج پر نظر آتی ہے، اس کی وجہ یقینا یہ ہے کہ آپ بتیس ٣٢ واسطوں سے خلیفہ ثانی سید نا فارقِ اعظم رضی اللہ عنہ، کی اولاد میں سے ہیں۔

آپ علیہ الرحمہ دہلی آئے اور تاریخ سے آپ کی بہادر شاہ ظفر سے ملاقات بھی ثابت ہے۔ منشی جیون لال کا ”روزنامچہ” ١٦/ اگست ، ٢ ستمبر، ٦ ستمبر اور ٧ ستمبر ١٨٥٧ء کو ملاقات ثابت کرتا ہے (دیکھئے غدر کی صبح و شام، ”روزنامچہ منشی جیون لال”، ص٢١٧، ٢٤٠، ٢٤٦، ٢٤٧)

اور علامہ عبد الحکیم شرف قادری اس کے تحت لکھتے ہیں: اس ”روزنامچہ” سے علامہ کی باخبری اور انقلابی سرگرمیوں کا اندازہ ہوتا ہے، اور علامہ نے موجودہ صورت حال کے متعلق بادشاہ سے گفتگو کی۔ (باغی ہندوستان ترجمۃ الثورۃ الہندیۃ،حرف آغاز، ص١٤١، مطبوعہ: الممتاز پبلی کیشنز، لاہور)

اور اس کے بعد میں علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمہ نے دیکھا کہ یہ انگریز ہمارے ذہنوں میں چھا جائے گا۔ مسلمان کی نسل کشی کرے گا۔ ہمارے مذہب اور تشخّص کو تباہ وبرباد کردے گا۔ علامہ فضل حق خیر آبادی نے ١٨٥٧ء میں دہلی میں بیٹھ کر انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ علامہ مشتاق احمد نظامی نے اسے اِ ن الفاظ میں بیان کیا کہ ”آخر علامہ فضل حق نے ترکش سے آخری تیر نکالا، بعد نمازِ جمعہ جامع مسجد میں علماء کے سامنے تقریر کی اور استفتاء پیش کیا، مفتی صدر الدین خان، مولوی عبدالقادر، قاضی فیض اللہ، مولانا فیض احمد بدایونی، وزیر خان اکبر آبادی، سید مبارک حسین رامپوری نے دستخط کر دئیے”۔ (سیرت فضل حق خیر آبادی، ص٢٣)

جب فتویٰ مرتّب کیا سب اکابر علماء سے اس فتویٰ پر دستخط کرائے۔ سارے اکابر علماء نے اس جہاد کے فتوے پر دستخط فرمائے۔ علامہ فضل حق خیر آبادی رحمۃ اﷲ علیہ کا جہاد کا فتویٰ جاری کرنا تھا کہ ہندوستان بھر میں انگریز کے خلاف ایک بہت بڑی عظیم لہر دوڑگئی اور گلی گلی، قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، بستی بستی، شہر شہر وہ قتال وہ جدال ہوا کہ انگریزحکومت کی چولہیں ہل گئیں۔ مگر آپ جانتے ہیں کہ انگریز بڑا مکار اور خبیث ہے اس نے اپنی تدبیر یں لڑا کر بڑے بڑے لوگوں کو خرید کر اور ڈرا دھمکا کر بے شمار لوگوں کو قتل کرنے کے بعد اس نے تحریک کو کُچل دیا۔ آزادی کی تحریک کوکُچل تودیا مگر حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی نے آزادی کا سنگ بنیادرکھ دیا تھا اس کو بظاہر انگریز نے وقتی طور پر کُچل دیا۔

 

مجاہدِ اہلسنّت نے جہاد کا فتویٰ واپس نہ لیا


انگریزوں کے دلوں میں یہ بات تھی کہ اگر چہ ہم نے اس تحریک کو بظاہر کچل دیا ہے مگر مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہاد نہیں نکال سکتے یہ بہت مشکل کام ہے ملکہ وکٹوریہ نے ایک مکارانہ چال چلی وہ مکارانہ چال یہ تھی کہ ہندوستان میں یہ اعلان کردیا جائے کہ جتنے بھی باغی ہیں سب کو معاف کردیا ہے چنانچہ انگریزوں نے یہ اعلان کردیا علامہ فضلِ حق خیر آبادی صاحب ابھی گرفتار نہیں ہوئے تھے وہ مجاہدین کی دہلی میں تربیت کرتے تھے دہلی سے آپ علی گڑھ تشریف لے گئے علی گڑھ میں آپ کچھ عرصے رہے وہاں مجاہدین کی مدد کرتے رہے جب انگریزنے یہ اعلان کیا کہ باغیوں کو معاف کردیا گیا ہے سارے مجاہدین باہر آگئے علامہ فضلِ حق خیر آبادی صاحب بھی اپنے وطن خیرآباد تشریف لے آئے۔

آپ خیر آباد پہنچے تھے کہ کچھ دنوں کے بعد کسی نے یہ مُخبر ی کردی کہ یہ وہی علامہ فضلِ حق صاحب ہیں جنہوں نے انگریزکے خلاف جہاد کا پہلا فتویٰ دیا تھا چنانچہ سازش کے تحت آپ کو گرفتار کرلیا گیا۔ گرفتار کرنے کے بعد آپ کو لکھنو لے جایا گیا وہاں آپ پر بغاوت کا مقدمہ چلا۔ جیسے ہی کاروائی شروع ہوئی گواہ نے آپ کو پہچاننے سے انکار کردیا جس جج کے سامنے آپ پیش ہوئے اس جج نے بھی آپ سے کچھ کتابیں پڑھیں تھیں وہ جج بھی یہی چاہتا تھا کہ علامہ صاحب کسی طرح مقدمے سے نکل آئیں اورسزا سے بچ جائیں۔

چنانچہ گواہ نے کہا کہ انگریز کے خلاف جنہوں نے جہاد کا فتویٰ دیا تھا وہ عالم دین نہیں ہیں یہ ساری کاروائی کے بعد جب آپ کے رہا ہونے کی منزل قریب آئی تو جج نے آپ کے کان میں کہا کہ علامہ صاحب آپ صرف اتنا کہہ دیں کہ یہ فتویٰ میں نے نہیں دیا ،آپ سزا سے بچ جائیں گے جج یہ کہہ کر اپنی کرسی پر بیٹھ گیا یہ سمجھ کر کہ علامہ صاحب میری بات سمجھ گئے ہوں گے، جب جج نے آ پ سے پوچھا کہ آپ نے انگریز حکومت کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ہے؟

آپ نے گرج دار لہجے میں کہا کہ اس گواہ نے مروت میں آکر مجھے پہچاننے سے انکار کردیا ہے میں نے ہی انگریز حکومت کے خلاف جہاد کافتویٰ دیا ہے اوراس کے عوض مجھے جو سزاملے گی میں قبول کروں گا۔

جج اورگواہ سرپکڑ کر بیٹھ گئے آپ کو اس جرم کی سزا عمر قید سنائی گئی. آپ علیہ الرحمہ کو انگریزوں نے (فتویٰ جہاد اور اہلِ ہند کو انگریز کے خلاف جہاد کے لئے تیار کرنے کے جُرم میں) فسادِ ہند کے زمانے میں جزیرہ رنگون (یعنی جزیرہ انڈمان جسے کالا پانی کہا جاتا تھا) میں قید کر دیا، وہیں تین برس کے بعد ١٢ صفر المظفر ١٢٧٨ھ بروز پیر بمطابق ۱۹ اگست ١٨٦١ء کو امام حریت نے عالم کو فیضیاب فرمانے کے بعد اسیری ہی کی حالت میں جزائر انڈیمان میں جام شہادت نوش فرمایا اور وہیں آپ کا مزار شریف ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مجاہد کو انگریز کی آزادی سے پہلے ہی اپنے نیک بندے کو آزاد کرلیا۔ (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ونوراللہ مرقدہ)۔ (تذکرہ علماء ہند فارسی، مصفنہ مولوی رحمان علی، ص١٦٥)

جہاد آزادی کے فتویٰ دینے پر انگریزوں نے آپ کو گرفتار کیا اور آپ کے کئی رفقاء علماء بھی اسیر ہوئے جن میں حضرت مولاناکفایت علی کافی (انہیں انگریزوں نے پھانسی دے کر شہید کیا) ، علامہ مفتی عنایت احمد کا کوروی علیہ الرحمۃ جبکہ بعض ترک وطن (ہجرت) کرکے مکہ یا مدینہ آباد ہوئے (جن میں مولانا رحمت اللہ کیرانوی، شیخ الدلائل مولانا عبدالحق مہاجر مکی ،شاہ احمد سعید مجددی ، مولوی ڈاکٹر وزیر خاں اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہم اللہ شامل ہیں) جبکہ مولانا فیض احمد بدایونی علیہ الرحمۃ کے بارے میں تا حال محققین کو علم نہیں کہ انگریزوں نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔

 

اسلامیانِ ہند کی سیاسی آزادی کے محاذ کے علاوہ علامہ فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ نے مسلمانوں کے عقیدہ کی حفاظت و صیانت کی جنگ بھی لڑی، ہندوستان میں وہابی تحریک کے آغاز ہی میں (جب انگریزوں کی سر پرستی میں مسلمانوں کے اندر سے عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو نکالنے کی سازش شروع ہوئی) امام حُریت نے سب سے پہلے مولوی اسماعیل دہلوی کی کتاب ”تقویۃ الایمان” کے کئی رد لکھے جس میں آپ کی تصنیف ”تحقیق الفتویٰ” قابلِ ذکر ہے جس کے آخر میں کئی مشاہیر کے علاوہ حضرت شاہ احمد سعید مجددی علیہ الرحمۃ کی مُہریں ثبت ہیں۔ مولوی اسماعیل دہلوی، مولوی محبوب علی جعفری، مولوی اسحق دہلوی (نواسہ عبدالعزیز محدث دہلوی علیہ الرحمۃ) اور مولوی عبدالحئی نے جب مل کر مسلمانانِ ہند کی خوش عقیدگی پر حملے کئے ، میلاد، توسل، عقیدہ شفاعت اور اعراس بزرگانِ دین کو شرک و بدعت کہنا شروع کیا تو مولانا فضل حق خیر آبادی علیہ الرحمۃ اور ان کی تحریک پر ہم عصر علماء، سیف اللہ المسلول، معین الحق، مولانا شاہ فضل رسول بدایونی (مصنف سیف الجبار علی الاعداء الابرار مکتوبہ ١٢٦٥ھ، بوارق محمدیہ، المعتقد المنتقد شرح فصوص الحکم، حاشیہ میر زاہد و ملا جلال وغیرہ) مولانا شاہ احمد سعید مجددی (مصنف اثبات مولد و القیام عربی، سعید البیان فی سید الانس و الجان اردو، الذکرا الشریف فی اثبات المولد المنیف فارسی) حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری (ماموں حضرت مولانا غلام دستگیر قصوری)، مولانا مفتی نقی علی خاں بریلوی (والد اعلحٰضرت) اور دیگر (رحمہم اللہ) نے تحریر اور تقریر کے میدان میں نکل کر علمی جہاد کیا اور اسلامیان ہند کے مسلک حق اہلسنّت و جماعت کے عقائد کا دفاع کیا۔ مولوی اسماعیل دہلوی کے نظریہ امکان کذب اور امکانِ نظیر رسول پر حضرت العلام نے قتیل بالا کوٹ کی پہلے فہمائش کی ۔ہر طرح سمجھایا لیکن وہ نہ مانے تو تحریری و تقریری ردّ فرمایا۔

آپکے مشہور تلامذہ میں حضرت تاج الفحو ل مولانا شاہ عبدالقادر بدایونی، حضرت مولانا شاہ عبدالحق ابن مولانا شاہ غلام رسول، مولانا رسول نما کانپوری، مولانا سید عبداللہ بلگرامی، حضرت مولانا سید ہدایت علی بریلوی، حضرت مولانا خیر الدین دہلوی (والد ابولکلام آزاد)، حضرت مولانا ہدایت اللہ خاں رام پوری، مولانا فیض الحسن سہارنپوری، نواب یوسف علی خاں رام پوری، مولانا عبدالعلی رامپوری، (استاد اعلیٰ حضرت ) نواب کلب علی رامپوری اور فرزند ارجمند شمس العلماء مولانا عبدالحق خیر آبادی شامل ہیں۔

تصانیف:

(١) تاریخ فتنہ الہند (فارسی)
(٢) الثورۃ الہندیہ (عربی)
(٣) عقائد فتنہ الہند
(٤) الجنس العالی فی شرح الجوہرالعالی
(٥) حاشیہ افق المبین
(٦) حاشیہ تلخیص الشفاالابن سینا
(٧) حاشیہ قاضی مبارک شرح
(٨) رسالہ فی تحقیق الاجسام
(٩) رسالہ فی تحقیق الکلی الطبعی
(١٠) الروض المجود فی مسئلہ وحدۃ الوجود
(١١) الہدیہ السعیدیہ
(١٢) تحقیق الفتویٰ فی ابطال الطغویٰ
(١٣) امتناع النظیر

حضرت امام ربّانی مجدد الف ثانی
شیخ احمد سرہندی فاروقی علیہ الرحمۃ والرضوان


آپ کی ولادت ١٤ شوال ٩٧١ ھ /١٥٦٣ء ، جلال الدین اکبر بادشاہ کے دور میں سرہند میں ہوئی۔ علوم عقلیہ و نقلیہ میں سند فراغ ٩٨٨ھ میں حاصل کی ١٠٠٧ھ میں آپ کے والد ِ بزرگوار شیخ عبدالاحد علیہ الرحمۃ کا وصال ہوا ۔ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت شیخ کمال کیتھلی علیہ الرحمۃ (وصال ٩٨١ھ /١٥٧٣ء) سے نسبت حاصل کی ۔ ١٠٠٨ھ /١٥٩٩ء میں دہلی تشریف لا کر ، زبدۃ العارفین حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہ، سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں بیعت ہو کر انتہائی کمال حاصل کیا اور اسی سال حضرت شاہ سکندر کیتھلی (نبیرہ شیخ کمال کیتھلی) نے حضرت غوثِ اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، ( ف ۔٥٦١ھ /١١٦٤ء) کا خرقہ خلافت حضرت مجدد کو عطا کیا۔ عہد اکبری اور جہانگیری میں مسندِ اقتدار سے لے کر عوام کے انتہائی پسماندہ طبقے تک اور سری لنکا کے ساحل سے لے کر آسام تک ، بحیرہ عرب کے جنوبی مسلم علاقوں سے لے کر چین کی سرحدوں تک، حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ نے جو رشد و ہدایت کی شمع فروزاں کی اس سے متذکرہ علاقوں کے علاوہ پورا عالمِ اسلام منور ہوا۔ سلطنتِ مغلیہ کے مقتدر ایوانوں اور عام مسلم گھرانوں میں آپ کے تجدیدی کارناموں کے باعث لاکھوں افراد کامیاب اور راہ یاب ہوئے ۔ آپ کی بے باکی، بے خوفی اور بے غرضی کو دیکھ کر قرونِ اولیٰ و ثانیہ کے مسلمان صحابہ و تابعین کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ طویل عرصہ زنداں میں اسیر (جیل میں نظر بند) رہنے کے باوجود آپ کے پائے ثبات متزلزل نہیں ہوئے۔ آپ کا وصال پر ملال ٦٣ برس کی عمر میں بروز دوشنبہ (پیر) ٢٩ صفر المظفر ١٠٣٤ھ/١٦٢٤ء میں ہوا۔ اپنے وصال کی خبر آپ نے دس برس قبل ہی دے دی تھی، جوکہ آپ کی کرامت ہے۔ آپ کے زمانہ میں مشہور علماء حضرت محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمۃ ، پیر طریقت حضرت خواجہ حسام الدین نقشبندی علیہ الرحمۃ اور امام المتکلمین حضرت علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی علیہ الرحمۃ تھے۔


شاعرِ مشرق ڈاکٹر محمد اقبال کا نذرانہ عقیدت

حاضر ہوا میں شیخ مجدد کی لحد پر
وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلعِ انوار

اس خاک کے ذروں سے ہیں شرمندہ ستارے
اس خاک میں پوشیدہ ہے وہ صاحبِ اسرار

گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے
جس کے نفسِ گرم سے ہے گرمیئ احرار

وہ ہند میں سرمایہ ملّت کا نگہباں
اللہ نے بر وقت کیا جس کو خبردار

عقائد و اعمال سے متعلق ارشادات


اہلسنّت ہی جنت میں جائیں گے:

نجات آخرت کا حاصل ہونا صرف اسی پر موقوف ہے کہ تمام افعال و اقوال و اصول و فروع میں اہلسنّت و جماعت (اکثر ہم اللہ تعالیٰ ) کا اتباع کیا جائے اور صرف یہی فرقہ جنتی ہے اہلسنّت و جماعت کے سوا جس قدر فرقے ہیں سب جہنمی ہیں۔ آج اس بات کو کوئی جانے یا نہ جانے کل قیامت کے دن ہر ایک شخص اس بات کو جان لے گا مگر اس وقت کا جاننا کچھ نفع نہ دے گا۔ (مکتوب ٦٩ جلد اوّل مطبع نو لکشور لکھنؤ ٨٦)


حبیب خدا صلی اللہ علیہ وسلم مقصود کائنات:

حدیث قدسی میں ہے کہ حضور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی

اَللّٰھُمَّ اَنْتَ وَمَا اَنَا وَمَا سواک تَرَکْتُ لاَجَلِکَ
یعنی اے اللہ توہی ہے اور میں نہیں ہوں اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے لئے چھوڑدیا

اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا

یَا مُحَمَّد اَنَا وَ اَنْتَ وَمَا سِوَاکَ خَلَقْتُ لاجَلِکَ
یعنی اے محبوب میں ہوں اور تو ہے اور تیرے سوا جو کچھ ہے سب کو میں نے تیرے ہی لئے پیدا کیا ۔ (مکتوب ٨ جلد دوم صفحہ ١٨)

معرفت ربّ العالمین کا سبب حقیقی:

اللہ تعالیٰ عزوجل نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمایا۔

لَوْ لاکَ لَمَا خَلَقْتُ الافْلاک
یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا

لَوْ لاکَ لَمَا اَظْہَرْتُ الرَّبُوْ بِیَّۃَ
یعنی تمہارا پیدا کرنا مجھے مقصود نہ ہوتا تو میں اپنا رب ہونا بھی ظاہر نہ کرتا۔ (مکتوب ١١٢جلد سوم صفحہ ٢٣٢)

مجدد صاحب کی زندگی کا مرکز و محور:

مجھے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ساتھ اسلئے محبت ہے کہ وہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا رب ہے ۔ (مکتوب ٢٢١جلدسوم صفحہ ٢٢٤)

نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اللہ کے نور سے ہیں:

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خلقت کسی بشر کی خلقت کی طرح نہیں بلکہ عالم ممکنات میں کوئی چیز بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتی ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ عزوجل نے اپنے نور سے پیدا فرمایا ہے۔ (مکتوب ١٠٠ جلد سوم صفحہ ١٨٧)


رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاسایہ نہیں تھا:

عالم امکان کو (جو تحت الثریٰ سے عرش تک کی جملہ موجودات و کائنا ت کا محیط ہے) جس قدر دقت نظر کے ساتھ دیکھا جاتا ہے حضور انورصلی اللہ علیہ وسلم کا وجود پاک اسکے اندر نظر نہیں آتا ۔ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم اس بزم امکان سے بالا تر ہیں۔ اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا۔ (مکتوب ١٠٠ جلد سوم صفحہ ١٨٧)

عقیدہ علم غیب:

جو علم غیب اللہ عزوجل کے ساتھ مخصوص ہے اس پر وہ اپنے خاص رسولوں کو مطلع فرمادیتا ہے۔ (مکتوب ٣١٠ جلد اول ٤٤٦)


شیخ مجدد کا مسلک پرتصلّب و تشدد:

جو شخص تمام ضروریات دین پرایمان رکھنے کا دعویٰ کرے لیکن کفرو کفار کے ساتھ نفرت و بیزاری نہ رکھے وہ درحقیقت مرتد ہے۔ اس کا حکم منافق کا حکم ہے۔ جب تک خدا عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی نہ رکھی جائے اس وقت تک خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت نہیں ہوسکتی ۔ یہیں پر یہ کہنا ٹھیک ہے ع

تولّٰی بے تبرّ یٰ نیست ممکن (مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ ٣٢٥)

اہلبیت کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں:

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کرام کیساتھ محبت کا فرض ہونا نصِ قطعی سے ثابت ہے ۔ اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت الی الحق و تبلیغ اسلام کی اجرت امت پر یہی قرار دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کیساتھ محبت کی جائے۔ قُل لاَّ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِلا الْمَوَدَّۃَ فِیْ الْقُرْبٰی۔ (مکتوب ٢٦٦، جلد اول صفحہ ٣٢٦)


اصحاب رسول سے محبت :

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو نیکی کیساتھ یاد کرنا چاہئے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی وجہ سے انکے ساتھ محبت رکھنی چاہئے ۔ ان کے ساتھ محبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ محبت ہے، انکے ساتھ عداوت حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کیساتھ عداوت ہے۔ (مکتوب ٢٦٦، جلد اول صفحہ ٣٢٦)

اصحابِ رسول کے درجات:

تمام صحابہ کرم میں سب سے افضل و اعلیٰ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں پھر ان کے بعد سب سے افضل سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں ان دونوں باتوں پر اجماع امت ہے اور چاروں آئمہ مجتہدین امام اعظم ابو حنیفہ و امام شافعی و امام مالک و امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم اجمعین اور اکثر علماء اہلسنّت کا یہی مذہب ہے کہ حضرت عمر کے بعد تمام صحابہ میں سب سے افضل سیدنا عثمان غنی ہیں ، پھر ان کے بعد تمام امت میں سب سے افضل سیدنا مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ، ہیں۔ (مکتوب ٢٦٦، جلد اول، صفحہ٣٣٠)


مولیٰ علی حق پر ہیں:

حضرت مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ، کے ساتھ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا و سیدنا طلحہٰ و سیدنا زبیر و سیدنا معاویہ و سیدنا عمر و بن العاص کی لڑائیاں ہوئیں۔ ان سب میں مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ حق پر تھے۔ اور یہ حضرات خطا پر ۔ لیکن وہ خطا عنادی نہ تھی بلکہ خطائے اجتہادی تھی۔ مجتہد کواسکی خطائے اجتہادی پر بھی ایک ثواب ملتا ہے۔ ہم کو تمام صحابہ کے ساتھ محبت رکھنے ، ان سب کی تعظیم کرنے کا حکم ہے جو کسی صحابی کے ساتھ بغض و عداوت رکھے وہ بد مذہب ہے۔ (خلاصہ مکتوب ٢٦٦ جلد اول صفحہ٣٢٦ تا ٣٣٠)

روافض سے اجتناب:

جو لوگ کلمہ پڑھتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں اللہ عزوجل نے قرآن میں ان کو کافر کہا ہے۔ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّار مسلمان کہلانے والے بد مذہب کی صحبت کھُلے ہوئے کافر کی صحبت سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ (مکتوب ٥٤ جلد اول صفحہ٧١)


اولیائے کرام کی فضیلت:

* انبیا و اولیاء کی پاک روحوں کو عرش سے فرش تک ہر جگہ برابر کی نسبت ہوتی ہے کوئی چیز ان سے نزدیک و دور نہیں۔ (مکتوب ٢٨٩ جلد ۱ صفحہ ٣٧١)
* حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اولیائے کرام کا طواف کرنے کیلئے کعبہ معظمہ حاضر ہوتا اور ان سے برکتیں حاصل کرتا ہے۔ (مکتوب ٢٠٩ جلد اول صفحہ ٢١١)
* اکمل اولیا اللہ کو اللہ عزوجل یہ قدرت عطا فرماتا ہے کہ وہ بیک وقت متعدد مقامات پر تشریف فرما ہوتے ہیں۔ (مکتوب ٥٨ جلد دوم صفحہ ١١٥)
* عارف ایسے مرتبہ پر پہنچ جاتا ہے کہ عرض ہو یا جوہر، آفاق ہو یا انفس تمام مخلوقات اور موجودات کے ذروں میں سے ہر ایک ذرہ اس کے لئے غیب الغیب کا دروازہ ہوجاتا ہے اور ہر ایک ذرہ بارگاہ الٰہی کی طرف اسکے لئے ایک سڑک بن جاتا ہے۔ (مکتوب ١١٠ جلد سومصفحہ٢١٠)

غوث اعظم تقدیر بدل سکتے ہیں:۔

حضور پر نور سیدنا غوث اعظم محی الدین عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ نے یہ قدرت عطا فرمائی ہے کہ جو قضا لوح محفوط میں بشکل مبرم لکھی ہوئی ہو اور اس کی تعلیق صرف علم خداوندی میں ہو۔ ایسی قضا میں باذن اللہ تصرف فرما سکتے ہیں۔ (مکتوب ٢١٧ جلد اول صفحہ ٢٢٤)

حضور پر نور سیدنا غوث اعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ مبارک سے قیامت تک جتنے اولیاء ،ابدال ، اقطاب ، اوتاد، نقبا، نجبائ، غوث یا مجدد ہونگے ، سب فیضان ولایت و برکات طریقت حاصل کرنے میں حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے محتاج ہونگے بغیر ان کے واسطے اور وسیلے کے قیامت تک کوئی شخص ولی نہیں ہوسکتا۔ احمد سرہندی بھی حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا نائب ہے جس طرح سورج کا پرتو پڑنے سے چاند منور ہوتا ہے اسی طرح احمد سرہندی پر بھی تمام فیوض و برکات حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ سے فائز ہورہے ہیں۔ (مکتوب ١٢٣ جلد سوم صفحہ ٢٤٨)

تقلید واجب ہے:۔

مقلد کو یہ جائز نہیں کہ اپنے امام کی رائے کے خلاف قرآن عظیم و حدیث شریف سے احکام شرعّیہ خود نکال کر ان پر عمل کرنے لگے۔ مقلدین کے لئے یہی ضروری ہے کہ جس امام کی تقلید کررہے ہیں اسی کے مذہب کا مفتی بہ قول معلوم کرکے اسی پر عمل کریں۔ (مکتوب ٢٨٦ جلد اول صفحہ ٣٧٥)

بد مذہبوں سے بچو!:

اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خلق عظیم کے ساتھ موصوف ہیں، کافروں اور منافقوں پر جہاد کرنے اور سختی فرمانے کا حکم دیا۔ اسلام کی عزت ،کفر کی ذلت پر اور مسلمانوں کی عزت، کافروں کی ذلت پر موقوف ہے۔ جس نے کافروں کی عزت کی اس نے مسلمانوں کی ذلیل کیا۔ کافروں اور منافقوں کو کتوں کی طرح دور رکھنا چاہئے۔ ۔خدا عزوجل اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ میل جول بہت بڑا گناہ ہے۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ دوستی و الفت خدا عزوجل و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی و عداوت تک پہنچا دیتی ہے۔ (مکتوب ١٦٣ جلد اول صفحہ ١٦٥)

 

گائے کی قربانی:

گائے ذبح کرنا ہندوستان میں اسلام کا بہت بڑا شعار ہے (مکتوب ٨١ جلد اول صفحہ ١٠٦)

ہندوؤں کے دیوتاؤں کو پیغمبر یا اوتار نہ سمجھواور خدا بھی نہ سمجھو:

ہندوؤں کے دیوتا مثل رام و کرشن وغیرہا کافر و بے دین تھے کہ لوگوں کو اپنی عبادت کی طرف دعوت دیتے تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ خدا ان کے اندر حلول کئے ہوئے ہے۔ ہندو جس رام اور کرشن کو پوجتے ہیں وہ تو ماں باپ سے پیدا ہوئے تھے، رام وسرتھ کا بیٹا تھا، لچھمن کا بھائی اور سیتا کا خاوند تھا لہٰذا یہ کہنا کہ رام اور رحمان ایک ہی ہستی کے دو نام ہیں کسی طرح ٹھیک نہیں۔ (مکتوب ١٦٧ جلد اول صفحہ ١٧١)


میلاد و اعراس کی محافل جائز ہیں:

مجلس میلاد شریف میں اگر اچھی آواز کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کی جائے اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف اور صحابہ کرام و اہل بیت عظام و اولیائے اعلام رضی اللہ عنہم اجمعین کی منقبت کے قصیدے پڑھے جائیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ ناجائز بات تو یہ ہے کہ قرآن عظیم کے حروف میں تغیر و تحریف کر دی جائے۔ اور قصیدے پڑھنے میں راگنی اور موسیقی کے قواعد کی رعایت و پابندی کی جائے اور تالیاں بجائی جائیں۔ جس مجلس میلاد مبارک میں یہ ناجائز باتیں نہ ہوں اس کے ناجائز ہونے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ ہاں جب تک راگنی اور تال سُر کے ساتھ گانے اور تالیاں بجانے کا دروازہ بالکل بند نہ کیا جائے گا ابو الہوس لوگ باز نہ آئیں گے۔ اگر ان نامشروع باتوں کی ذرا سی بھی اجازت دے دی جائے گی تو اس کا نتیجہ بہت ہی خراب نکلے گا۔ (مکتوب ٧٢ جلد سوئم صفحہ ١١٦)

بے ادبوں گستاخوں سے صلح جائز نہیں:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کے ساتھ کمال محبت کی علامت یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ کمال بغض رکھیں۔ اور ان کی شریعت کے مخالفوں کے ساتھ عداوت کا اظہار کریں۔ محبت کے اندر پالیسی اور چاپلوسی جائز نہیں۔ کیونکہ محب اپنے محبوب کا دیوانہ ہوتا ہے۔ وہ اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ اس کے محبوب کی مخالفت کی جائے۔ وہ اپنے محبوب کے مخالفوں کے ساتھ کسی طرح بھی صلح پسند نہیں کرتا۔ دو محبتیں جو آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہوں ایک قلب میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں ۔ کفار کے ساتھ جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں دشمن ہونا چاہئے اور ان کی ذلت و خواری میں کوشش کرنا چاہئے اور کسی طرح بھی ان کو عزت نہیں دینا چاہئے اور ان بدبختوں کو اپنی مجلس میں آنے نہیں دینا چاہئے اور ان سے اُنس و محبت نہیں کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ سختی و شدت کا طریقہ برتنا چاہئے اور جہاں تک ہوسکے کسی بات میں ان کی طرف رجوع نہ کرنا چاہئے اور اگر بالفرض ان سے کوئی ضرورت پڑ جائے تو جس طرح انسان ناگواری اور مجبوری سے بیت الخلا جاتا ہے اسی طرح ان سے اپنی ضرورت پوری کرنا چاہئے۔ (خلاصہ مکتوب ١٦٥ جلد اول صفحہ ١٦٦ تا ١٦٩)


بادشاہ حکمراں کی حیثیت:

رعایا کے ساتھ بادشاہ کا تعلق ایسا ہے جیسا دل کا جسم سے ہوتا ہے، اگر دل ٹھیک ہو تو بدن بھی ٹھیک رہے گا، اگر دل بگڑ جائے تو بدن بھی بگڑ جائے گا، بالکل اسی طرح ملک کی بہتری بادشاہ کی بہتری پر منحصر ہے، اگر بادشاہ بگڑ جائے گا تو ملک کا بگڑ جانا بھی لازمی ہے۔

شہزادہ خرّم (شاہجہاں) کو بشارت دی:

ایک دن حضرت مجدد تنہا بیٹھے تھے کہ شہزادہ خرم آپکی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا! یہ عجیب بات ہے کہ میں نے ہمیشہ آپ کی طرف دار و حمایت کی مگر آپ نے میرے حق میں دعا کے بجائے بادشاہ کے حق میں دعا فرمادی آپ نے جواباً فرمایا! ”مت گھبرا، مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہوا ہے کہ تو عنقریب تخت پر بیٹھے گا اور تیرا لقب شاہ جہاں ہوگا۔” شہزادہ خرم نے استدعا کی کہ مجھے بطور تبرک اپنی دستار عطا فرمائیں تو امام ربانی نے اپنی دستار شہزادہ کو دی جو عرصہ تک مغل بادشاہوں کے پاس تبرکاً محفوظ رہی۔

— — —
تحریر: علامہ نسیم احمد صدیقی مد ظلہ عالی
پیشکش: انجمن ضیائے طیبہ، کراچی، پاکستان

حضرت شیخ الاسلام غوث بہاؤ الحق و الدین سیدنا زکریا ملتانی سُہروردی علیہ الرحمة
خاندانی حالات و علم و فضل
حضرت مخدوم شیخ بہاﺅالدین زکریا ملتانی رحمة اللہ علیہ خاندان سہروردیہ کے بڑے بزرگ اور عارف کامل گزرے ہیں۔ حافظ‘ قاری‘ محدث‘ مفسر‘ عالم‘ فاضل‘ عارف‘ ولی سب کچھ تھے‘ ۔ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ کے خلیفہ تھے۔ ہندوستان کے اندر آپ ولیوں میں باز سفید کے نام سے مشہور تھے۔ حضرت شیخ بہاؤالدین زکریا ملتانی رحمة اللہ علیہ ساتویں صدی ہجری کے مجدددین میں شمار کئے جاتے ہیں آپ ظاہری و باطنی علوم میں یکتائے روزگار تھے ، اسلام کے عظیم مبلغ تھے. آپ کے جد امجد مکہ معظمہ سے پہلے خوارزم آئے ، پھر ملتان میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ یہیں پیدا ہوئے۔ آپ رحمة اللہ علیہ نسبتاً قریشی ہیں۔ آپ 578ھ میں پیدا ہوئے۔ یہ عہد خسرو ملک غزنوی کا عہد تھا۔ آپ کی ولادت ملتان سے قریب ایک علاقے کوٹ کہرور ضلع لیّہ میں ٢٧ رمضان المبارک شب جمعہ کو ہوئی۔ آپ کی والدہ نے رمضان کے دنوں میں آپ کو ہر چند دودھ پلانا چاہا مگر آپ نے نہ پیا جو آپ کی کرامت ہے۔ بارہ سال کی عمر تک آپ رحمة اللہ علیہ ملتان میں ہی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اس کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ خراسان تشریف لے گئے۔ اسی عمر میں آپ رحمة اللہ علیہ حافظ و قاری ہو گئے تھے۔والد گرامی کے انتقال کے بعد آپ رحمة اللہ علیہ نے محض حصول علم و فن کیلئے پیادہ پا خراسان کا سفر کیا۔ اس کے بعد بلخ بخارا و بغداد اور مدینہ منورہ کے شہرہ آفاق مدارس میں رہ کر سند فضیلت حاصل کی۔ پانچ سال تک مدینہ منورہ ہی میں رہے جہاں حدیث پڑھی بھی اور پڑھائی بھی۔ غرض پندرہ سال اسلام کے مشہور مدارس و جامعات میں رہ کر مقعولات اور منقولات کی تکمیل کی۔ مدینہ منورہ ہی میں حضرت کمال الدین محمد یمنی محدث رحمة اللہ علیہ سے احادیث کی تصحیح کرتے رہے۔ جب پورا تجربہ حاصل ہو گیا تو آپ رحمة اللہ علیہ مکہ معظمہ میں حاضر ہوئے اور یہاںسے بیت المقدس پہنچ کر انبیاءکرام علیہم السلام کے مزارات کی زیارات کیں۔ اس عرصہ میں نا صرف یہ کہ آپ علوم ظاہر کی تکمیل میں مصروف رہے بلکہ بڑے بڑے بزرگان دین اور کاملین علوم باطنی کی صحبتوں سے بھی فیض یاب ہوئے۔ بڑے بڑے مشائخ سے ملے۔ فیوض باطنی حاصل کئے اور پاکبازانہ و متقیانہ زندگی بسر کرتے رہے۔ جس وقت آپ بغداد شریف وارد ہوئے تو ایک جید عالم تھے۔
١٥ سال کی عمر میں حفظِ قرآن ، حسنِ قرأت، علومِ عقلیہ و نقلیہ اور ظاہری و باطنی علوم سے بھی مرصع ہوگئے تھے ۔ آپ کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ قرآن مجید کی ساتوں قرأت (سبعہ قرأت) پر مکمل عبور رکھتے تھے۔ آپ نے حصول علم کیلئے خراسان ، بخارا ، یمن، مدینة المنورة ، مکة المکرمة ، حلب، دمشق، بغداد، بصرہ، فلسطین اور موصل کے سفر کر کے مختلف ماہرین علومِ شرعیہ سے اکتساب کیا۔ شیخ طریقت کی تلاش میں آپ ، اپنے زمانہ کے معاصرین حضرت ِ خواجہ فرید الدین مسعود گنجِ شکر، حضرت سید جلال الدین شاہ بخاری (مخدوم جہانیاں جہاں گشت) اور حضرت سید عثمان لعل شاہباز قلندر رحمہم اللہ کے ساتھ سفر کرتے رہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خرقہ خلافت دلایا
بیت المقدس سے مختلف بلاد مشائخ اور مزارات کی زیارت کرتے ہوئے مدینة العلم بغداد میں آئے تو اس وقت حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمة اللہ علیہ کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کی ذات گرامی مرجع خلائق بنی ہوئی تھے۔ بڑا دربار تھا ‘ بڑا تقدس ۔ آپ رحمة اللہ علیہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھتے ہی فرمایا باز سفید آ گیا۔ جو میرے سلسلہ کا آفتاب ہو گا اور جس سے میرا سلسلہ بیعت وسعت پذیر ہوگا۔ آپ رحمة اللہ علیہ نے ادب سے گردن جھکائی۔ شیخ رحمة اللہ علیہ نے اسی روز حلقہ ارادت میں لے لیا اور تمام توجہات آپ کی طرف مرکوز تھیں۔ صرف سترہ روز بعد درجہ ولایت کو پہنچا کر باطنی دولت سے مالا مال اور خرقہ خلافت عطا کر کے رخصت کر دیا۔
خانقاہ شیخ الشیوخ تو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی روحانی یونیورسٹی تھی جس میں ہر وقت اور ہمیشہ درویشوں اور طریقت والوں کا ہجوم رہتا تھا۔ اس وقت اور بھی بہت سے بزرگ ان کی خدمت میں موجود تھے۔ جو مدت سے خرقہ خلافت کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے جو دیکھا کہ مخدو م بہاﺅالدین رحمة اللہ علیہ کو آتے ہی خلافت بھی مل گئی اورہم تو برسوں سے خدمت کر رہے ہیں‘ اب تک یہ مرتبہ حاصل نہ ہوا اور یہ نوجوان چند روز ہی میں کمال کو پہنچ گیا۔ حضرت شہاب الدین سہروردی رحمة اللہ علیہ نے الحمد للہ نور باطن سے معلوم کر کے فرمایا کہ تم بہاﺅ الدین رحمة اللہ علیہ کی حالت پر کیا رشک کرتے ہو وہ تو چوبِ خشک تھا جسے فوراً آگ لگ گئی اور بھڑک اٹھی۔ تم چوبِ تَر کی مانند ہو جو سلگ سلگ کر جل رہی ہے اور جلتے جلتے ہی جلے گی۔ پھر سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ تمام امور‘ فضل الٰہی پر منحصر ہیں۔
سترھویں شب ہی کو مخدوم صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ایک بڑا آراستہ مکان ہے جو انوار تجلیات سے جگمگا رہا ہے ‘ درمیان میں تخت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ افروز ہیں۔ دائیں جانب حضرت شیخ الشیوخ دست بستہ مودب کھڑے ہیں اور قریب ہی چند خرقے آویزاں ہیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخدوم صاحب کو سامنے بلایا اور ہاتھ پکڑ کر اسے حضرت شیخ الشیوخ کے ہاتھ میں دے دیا اور فرمایا کہ میں اسے تمہارے سپرد کرتا ہوں۔ ان خرقوں میں سے ایک خرقہ بہاﺅالدین کو پہنا دو۔ چنانچہ انہوںنے تعمیل حکم کے طور پر آپ کو ایک خرقہ پہنا دیا۔
صبح ہوتی ہے حضرت شیخ الشیوخ نے آپ کو بلایا اور فرمایا کہ رات کو جو خرقہ عطا ہوا ہے وہ تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا ہوا ہے۔ آپ نے وہ خرقہ پہنایا اور حکم دیا کہ اب ملتان پہنچ کر ہدایت خلق میں مصروف ہو جاﺅ ۔ یہ تھا حضرت مخدوم صاحب کا مرتبہ کہ ستر ہ روز میں خلافت ملی ‘ حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی‘ سب کچھ دکھا کر ملی ‘ گویا آپ کو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتان میں پنجاب ‘ سندھ اور سرحد میں روشنی پھیلانے کیلئے متعین کیا تھا۔ شیخ کے حکم پر آپ ہندوستان کے علاقہ ملتان میں تبلیغِ دین میں مصروف ہوئے ۔ آپ کے ذریعے ہزاروں ہندو ،مسلمان ہوئے جبکہ لاکھوں مسلمان راہ یاب اور کامیاب ہوئے۔ آپ کے ملفوظات اور مکتوبات طبع ہوچکے ہیں ، جن میں سے یہ ایک جملہ مکمل اسلامی زندگی کا احاطہ کرتا ہے ۔
 جسم کی سلامتی کم کھانے میں ، روح کی سلامتی گناہوں کے ترک میں اور دین کی سلامتی نبی کریم صاحبِ لولاک علیہ الصلوٰة والسلام پر درود بھیجنے میں ہے ۔
دار الاسلام ملتان کا سہروردی مدرسہ
ملتان دارالسلام تھا۔ اتنے عرصہ میں فضا اور بدل چکی تھی۔ حالانکہ آپ یہیں کے رہنے والے تھے مگر پھر بھی چونکہ آپ صاحب ولایت اور بااقتدار اور باکمال ہو کر آرہے تھے اس لئے مشائخین ملتان کو آپ کا ملتان آنا ناگوار گزرا۔ انہوں نے دودھ کا پیالہ آپ کے پاس بھیجا جس کا مقصد یہ اشارہ تھا کہ یہاں کا میدان پہلے ہی سرسبز ہے اور ملتان میں آپ کیلئے کوئی جگہ نہیں۔ آپ نے اشارہ سمجھ کر دودھ کے بھرے پیالے میں ایک گلاب کاپھول ڈال کر بھیج دیا۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ گو کہ یہ پیالہ لبالب ہے، یہاں جگہ نہیں مگر میں مثل اس پھول کے یہاں رہوں گا اور میرے رہنے سے نہ کسی کی جگہ پر اثر پڑے گا نہ کسی پر بار رہوں گا۔ آپ 614ھ میں ملتان پہنچے اس وقت آپ کی عمر 36‘37 برس کی تھی۔ آپ نے ملتان پہنچ کر ملتان کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اس کی شہرت کو ہمدوش ثریا بنا دیا۔ آپ نے عظیم الشان مدرسہ رفیع المنزلت خانقاہ و عریض لنگر خانہ ‘ پر شکوہ مجلس خانہ اور خوبصورت عالی شان سرائیں اور مساجد تعمیر کرائیں۔
اس وقت ملتان کا مدرسہ ہندوستان کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت رکھتا تھا جس میں جملہ علوم منقول کی تعلیم ہوتی تھی ۔ بڑے بڑے لائق اور وحید العصر معلم پروفیسر اس میں فقہ و حدیث، تفسیر قرآن ‘ ادب‘ فلسفہ و منطق ریاضی و ہیت کی تعلیم دیتے تھے۔نہ صرف ہندوستان بلکہ بلاد ایشیاءعراق شام تک کے طلباءاس مدرسہ میں زیر تعلیم تھے۔ طلباءکی ایسی کثرت تھی کہ ہندوستان میں اس کی کوئی نظیر نہیں تھی۔ لنگر خانہ سے دونوں وقت کھانا ملتا تھا ۔ ان کے قیام کیلئے سینکڑوں حجرے بنے ہوئے تھے۔ اس جامعہ اسلامیہ نے ایشیا کے بڑے بڑے نامور علماءو فضلا پیدا کئے ‘ ملتان کی علمی و لٹریری شہرت کو فلک الافلاک تک پہنچا دیا۔
سیاسیات پر گہر اثر و رسوخ
حضرت صاحب علیہ الرحمة کا قرونِ وسطیٰ کی سیاسیات پر گہر اثر و رسوخ تھا چنانچہ ملتان پر اقتدار قائم رکھنے میں ــ”التمش ” (٦٠٧ ھ /١٢١٠ء تا ٦٣٣ھ /١٢٣٥ء) نے آپ سے ہمیشہ مدد چاہی اور حضرت شیخ نے بھی اس کی دین داری اور رعایا پر وری کو ملاحظہ فرما کر اسے بڑی مدد دی ، ٦٤٤ھ /١٢٤٦ء میں منگولوں کے حملوں سے ملتان کو محفوظ رکھنے میں مؤثر کردار ادا کیا۔ آپ بابا گنج شکر کے خالہ زاد بھائی تھے۔ مشہور شاعر عراقی آپ کا داماد تھا۔ والی سندھ اور ملتان ناصر الدین قباچہ کو آپ سے بہت عقیدت تھی۔
وصال شریف
آپ کی وفات ِحسرت آیات ٧ صفر ٦٦١ ھ/٢١ دسمبر ١٢٦١ء کو ہوئی۔ آپ کا مزار شریف قلعہ محمد بن قاسم کے آخر میں مرجع خلائق ہے، مزار کی عمارت پر کاشی کا کام قابل دید ہے اور سینکڑوں اشعار یاد رکھنے کے لائق ہیں، مزار کا احاطہ ہر قسم کی خرافات سے پاک ہے ۔ عرس کے موقع پر علماء کرام کی تقاریر خلق خدا کی ہدایت کاسامان بنتی ہیں، اندرون سندھ سے مریدین اور معتقدین کے قافلے پا پیادہ حاضر ہوتے ہیں۔
آپ کا وصال ٦٦١ھ میں اٹھاسی سال کی عمر میں ہوا۔ حضرت خواجہ غریب نواز ٦٦٦ھ حضرت قطب الاقطاب ٦٣٣ھ حضرت بابا صاحب ٦٦٦ھ اور حضرت مخدوم صاحب ٦٦٦ھ میں وصال پا گئے، یہ عہد کتنا مبارک عہد تھا۔
 
(ماخوذ ”دائرہ معارف اسلامیہ ” جلد ٥، صفحہ ٩٤، ٩٥۔۔۔۔۔۔ ”نزہة الخواطر” جلد ١ صفحہ ١٢٠، ١٢١ ۔۔۔۔۔۔ ”تذکرہ اولیائے سندھ ” صفحہ ١٠٩ تا ١١١)

شیخ محقق علی الاطلاق حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی رضی اللہ تعالی عنہ بن سیف الدین بن سعد اللہ بن شیخ فیروز بن ملک موسی بن ملک معز الدین بن آغا محمد ترک بخاری کی ولادت ماہ محرم ۹۵۸ھ /۱۵۵۱ء کو دہلی میں ہوئی ۔یہ سلیم شاہ سوری کا زمانہ تھا ، مہدوی تحریک اس وقت پورے عروج پر تھی جسکے بانی سید محمد جونپوری تھے ۔ شیخ کی ابتدائی تعلیم وتربیت خود والد ماجد کی آغوش ہی میں ہوئی ۔والد ماجد نے انکو بعض ایسی ہدایتیں کی تھیں جس پر آپ تمام عمر عمل پیرا رہے ، قرآن کریم کی تعلیم سے لیکر کافیہ تک والد ماجد ہی سے پڑھا۔

شیخ سیف الدین اپنے بیٹے کی تعلیم خود اپنی نگرانی میں مکمل کرانے کیلئے بے چین رہتے تھے ، انکی تمنا تھی کہ وہ اپنے جگر گوشہ کے سینہ میں وہ تمام علوم منتقل کر دیں جو انہوں نے عمر بھر کے ریاض سے حاصل کئے تھے ، لیکن انکی پیرانہ سالی کا زمانہ تھا ، اس لئے سخت مجبور بھی تھے کبھی کتابوں کا شمار کرتے اور حسرت کے ساتھ کہتے کہ یہ اور پڑ ھالو ں ۔پھر فرماتے ۔

مجھے بڑ ی خوشی ہوتی ہے جس وقت یہ تصور کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو اس کمال تک پہونچادے جو میں نے خیال کیا ہے ۔

حضرت شخ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ نے صر ف تین ماہ میں پورا قرآن پاک مکمل قواعد کے ساتھ اپنے والد ماجد سے پڑھ لیا۔ اورایک ماہ میں کتابت کی قدرت اور انشاء کا سلیقہ حاصل ہو گیا اٹھارہ سال کی عمر میں آپ نے تمام علوم عقلیہ اور نقلیہ اپنے والد ماجد سے حاصل کر لیے ۔اس دوران آپ نے جید علماء کرام سے بھی اکتساب علم کیا ۔

شیخ محدث خود بے حد ذہین تھے ، طلب علم کا سچا جذبہ تھا ، بارہ تیرہ برس کی عمر میں شرح شمسیہ اورشرح عقائد پڑ ھ لی اور پندرہ برس کی عمر ہو گی ، کہ مختصر ومطول سے فارغ ہوئے ، اٹھا رہ برس کی عمر میں علوم عقلیہ ونقلیہ کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جسکی سیر نہ کر چکے ہوں ۔

عربی میں کامل دستگاہ اور علم کلام ومنطق پر پورا عبور حاصل کرنے کے بعد شیخ محدث نے دانشمندان ماوراء النہر سے اکتساب کیا ۔شیخ نے ان بزرگوں کے نام نہیں بتائے ، بہرحال ان علوم کے حصول میں بھی انکی مشغولیت اور انہماک کا یہ عالم رہا کہ رات ودن کے کسی حصہ میں فرصت نہ ملتی تھی ۔

شیخ نے پاکئی عقل وخرد کے ساتھ ساتھ عفت قلب ونگاہ کا بھی پوراپورا خیال رکھا ، بچپن سے انکو عبادت وریاضت میں دلچسپی تھی ، انکے والد ماجد نے ہدایت کی تھی ۔

ملائے خشک ونا ہموار نباشی

چنانچہ عمر بھر انکے ایک ہاتھ میں جام شریعت رہا اور دوسرے میں سندان عشق ۔والد ماجد نے ان میں عشق حقیقی کے وہ جذبات پھونک دیئے تھے جو آخر عمر تک انکے قلب وجگر کو گرماتے رہے ۔


اس زمانہ میں شیخ محدث کو علماء ومشائخ کی صحبت میں بیٹھنے اور مستفید ہونے کا بڑ ا شوق تھا ، اپنے مذہبی جذبات اور خلوص نیت کے باعث وہ ان بزرگوں کے لطف وکرم کا مرکز بن جاتے تھے ۔
شیخ اسحاق متوفی ۹۸۹ھ سہروردیہ سلسلہ کے مشہور بزرگ تھے اور ملتان سے دہلی سکونت اختیار کر لی تھی ، اکثر اوقات خاموش رہتے لیکن جب شیخ انکی خدمت میں حاضر ہوتے تو بے حد التفات و کرم فرماتے ۔

شیخ نے تکمیل علم کے بعد ہندوستان کیوں چھوڑا اسکی داستان طویل ہے ، مختصر یہ کہ اپ کچھ عرصہ فتح پور سیکری میں رہے ، وہاں اکبر کے درباریوں نے آپکی قدر بھی کی لیکن حالات کی تبدیلی نے یوں کروٹ لی کہ اکبر نے دین الہی کا فتنہ کھڑا کر دیا۔ ابو الفضل اور فیضی نے اس دینی انتشار کی رہبری کی ، یہ دیکھ کر آپکی طبیعت گھبرا گئی ، ان حالات میں ترک وطن کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ، لہذا آپ نے غیرت دینی سے مجبور ہوکر حجاز کی راہ لی ۔

۹۹۶ھ میں جبکہ شیخ کی عمر اڑ تیس سال تھی وہ حجاز کی طرف روانہ ہوگئے ۔وہاں پہونچ کر آپ نے تقریباً تین سال کا زمانہ شیخ عبدالوہاب متقی کی خدمت میں گذرا ۔انکی صحبت نے سونے پر سہاگے کا کام کیا ، شیخ نے علم کی تکمیل کرائی اور احسان وسلوک کی را ہوں سے آشنا کیا ۔

شیخ عبدالوہاب متقی نے آپکو مشکوة کا درس دینا شروع کیا ، درمیان میں مدینہ طیبہ کی حاضری کا شرف بھی حاصل ہوا اور پھر تین سال کی مدت میں مشکوة کا درس مکمل ہوا ۔

اسکے بعد آداب ذکر ، تقلیل طعام وغیرہ کی تعلیم دی اور تصوف کی کچھ کتابیں پڑ ھائیں ۔ پھر حرم شریف کے ایک حجرہ میں ریاضت کیلئے بٹھادیا ۔شیخ عبدالوہاب متقی نے اس زمانہ میں انکی طرف خاص توجہ کی ۔ ان کا یہ دستور تھا کہ ہر جمعہ کو حرم شریف میں حاضر ہوا کرتے تھے ۔ جب یہاں آتے تو شیخ عبدالحق سے بھی ملتے اور انکی عبادت وریاضت کی نگرانی فرماتے ۔

فقہ حنفی کے متعلق شیخ محدث کے خیالات قیام حجاز کے دوران بدل گئے تھے اور وہ شافعی مذہب اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ، شیخ عبدالوہاب کو اس کا علم ہوا تو مناقب امام اعظم پر ایسا پرتاثیر خطبہ ارشاد فرمایا کہ شیخ محدث کے خیالات بدل گئے اور فقہ حنفی کی عظمت ان کے دل میں جاگزیں ہوگئی ۔حدیث ، تصوف فقہ حنفی اور حقوق العباد کی اعلی تعلیم در حقیقت شیخ عبدالوہاب متقی کے قدموں میں حاصل کی ۔

علم وعمل کی سب وادیوں کی سیر کرنے کے بعد شیخ عبدالوہاب متقی نے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کو ہندوستان واپس جانے کی ہدایت کی اور فرمایا ۔اب تم اپنے گھر جاؤ کہ تمہاری والدہ اور بچے بہت پریشان حال اورتمہارے منتظر ہونگے ۔

شیخ محدث ہندوستان کے حالات سے کچھ ایسے دل برداشتہ ہو چکے تھے کہ یہاں آنے کو مطلق طبیعت نہ چاہتی تھی ۔لیکن شیخ کا حکم ماننا ازبس ضروری تھا ، شیخ نے رخصت کرتے وقت حضرت سیدنا غوث اعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک، پیراہن مبارک عنایت فرمایا ۔

آپ ۱۰۰۰ھ میں ہندوستان واپس آئے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اکبر کے غیر متعین مذہبی افکار نے دین الہی کی شکل اختیار کر لی تھی ۔ملک کا سارا مذہبی ماحول خراب ہو چکا تھا ۔شریعت وسنت سے بے اعتنائی عام ہوگئی تھی ۔دربار میں اسلامی شعار کی کھلم کھلا تضحیک کی جاتی تھی ۔

حجاز سے واپسی پر شیخ عبدالحق نے دہلی میں مسند درس وارشاد بچھادی ۔شمالی ہندوستان میں اس زمانہ کا یہ پہلا مدرسہ تھا جہاں سے شریعت وسنت کی آواز بلند ہوئی ۔درس وتدریس کا یہ مشغلہ آپ نے آخری لمحات تک جاری رکھا ۔انکا مدرسہ دہلی ہی میں نہیں سارے شمالی ہندوستان میں ایسی امتیازی شان رکھتا تھا کہ سیکڑ وں کی تعداد میں طلبہ استفادہ کیلئے جمع ہوتے اور متعدد اساتذہ درس وتدریس کاکام انجام دیتے تھے ۔

یہ دارالعلوم اس طوفانی دور میں شریعت اسلامیہ اور سنت نبویہ کی سب سے بڑ ی پشت پناہ تھا ، مذہبی گمراہیوں کے بادل چاروں طرف منڈلائے ، مخالف طاقتیں باربار اس دارالعلوم کے بام ودرسے ٹکرائیں لیکن شیخ محدث کے پائے ثبات میں ذرابھی لغزش پید انہ ہوئی ۔آپنے عزم واستقلال سے وہ کام انجام دیا جو ان حالات میں ناممکن نظر آتا تھا ۔

شیخ نے سب سے پہلے والد ماجد سے روحانی تعلیم حاصل کی تھی اور انہیں کے حکم سے حضرت سید موسی گیلانی کے حلقہ مریدین میں شامل ہوئے ۔ یہ سلسلہ قادریہ کے عظیم المرتب بزرگ تھے ۔مکہ معظمہ سے بھی سلسلہ قادریہ ، چشتیہ ، شاذلیہ اور مدینیہ میں خلافت حاصل کی ۔

ہندوستان واپسی پر حضرت خواجہ باقی باللہ کے فیوض وبرکات سے مستفید ہوئے ۔ حضرت خواجہ باقی باللہ کی ذات گرامی احیاء سنت اور اماتت بدعت کی تمام تحریکوں کا منبع و مخرج تھی ۔انکے ملفوظات ومکتوبات کا ایک ایک حرف انکی مجد دانہ مساعی ، بلندی فکرونظر کا شاہد ہے ۔

شیخ کا قلبی اور حقیقی تعلق سلسلہ قادریہ سے تھا ، انکی عقیدت وارادت کا مرکز حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے ۔ انکے دل ودماغ کا ریشہ ریشہ شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سرہ کے عشق میں گرفتار تھا ، یہ سب کچھ آپکی تصانیف سے ظاہر وباہر ہے ۔


حضرت شیخ محدث دہلوی رحمة اللہ تعالیٰ علیہ کوسرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے حد عقیدت ومحبت تھی ۔اسی عقیدت ومحبت کی بناء پر اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبت رکھنے والی ہر شے سے محبت رکھتے تھے آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ جب بھی مدینہ شریف حاضر ہوتے تو اپنے جوتے اتار دیتے اور ننگے پائوں رہتے ۔آپ نے تین سال حجاز مقدس میں قیام فرمایا ۔آپ رحمة اللہ تعالیٰ علیہ چار مرتبہ سرکاردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی سلیم شاہ بنوری کے عہد میں پیدا ہوئے اور شاہجہاں کے سنہ جلوس میں وصال فرمایا ۔

اکبر ، جہانگیر اور شاہجہاں کا عہد انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور حالات کا بغور مطالعہ کیا تھا لیکن انہوں نے کبھی سلاطین یا ارباب حکومت سے کوئی تعلق نہ رکھا ۔عمر بھر گوشہ تنہائی میں رہے۔

وصال شریف

۲۱ ربیع الاول ۱۰۵۲ھ کو یہ آفتاب علم جس نے چورانوے سال تک فضائے ہند کو اپنی ضو فشانی سے منور رکھا تھا غروب ہو گیا ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ آپ کی وصیت کے مطابق حوض شمسی کے کنارے سپرد خاک کیا گیا۔

شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی دعا

اے اﷲ! میرا کوئی عمل ایسا نہیں جسے تیرے دربار میں پیش کرنے کے لائق سمجھوں، میرے تمام اعمال فساد نیت کا شکار ہیں البتہ مجھ فقیر کا ایک عمل محض تیری ہی عنایت سے اس قابل (اور لائق التفات) ہے اور وہ یہ ہے کہ مجلس میلاد کے موقع پر کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہوں اور نہایت ہی عاجزی و انکساری، محبت و خلوص کے ساتھ تیرے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجتا ہوں۔

اے اﷲ! وہ کون سا مقام ہے جہاں میلاد پاک سے بڑھ کر تیری طرف سے خیر و برکت کا نزول ہوتا ہے؟ اس لئے اے ارحم الراحمین مجھے پکا یقین ہے کہ میرا یہ عمل کبھی رائیگاں نہیں جائے گا بلکہ یقیناً تیری بارگاہ میں قبول ہو گا اور جو کوئی درود و سلام پڑھے اور اس کے ذریعے سے دعا کرے وہ کبھی مسترد نہیں ہوسکتی۔ (اخبار الاخیار : 624)

تصانیف

آپکی تصانیف سوسے زائد شمار کی گئی ہیں ، المکاتیب والرسائل کے مجموعہ میں ۶۸رسائل شامل ہیں ، انکو ایک کتاب شمار کرنے والے تعداد تصنیف پچاس بتاتے ہیں ۔

آپ نے بیسوں موضوعات پر لکھا لیکن آپ کا اصل وظیفہ احباء سنت اور نشر احادیث رسول تھا ، اس لئے اس موضوع پر آپنے ایک درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف فرمائیں ، چند کتابیں نہایت مشہور ہیں ۔

اشعة اللمعات ۔ اشعة اللمعات فارسی زبان میں مشکوة کی نہایت جامع اور مکمل شرح ہے ۔ شیخ محدث نے یہ کارنامہ چھ سال کی مدت میں انجام دیا ۔

لمعات التنقیح ۔ عربی زبان میں مشکوة کی شرح ہے ، دوجلدوں پر مشتمل ، فہرست التوالیف میں شیخ نے سر فہرست ا سکا ذکر کیا ہے ، اشعة اللمعات کی تصنیف کے دوران بعض مضامین ایسے پیش آ ئے جن کی تشریح کو فارسی میں مناسب نہ سمجھاکہ یہ اس وقت عوام کی زبان تھی ، بعض مباحث میں عوام کو شریک کرنا مصلحت کے خلاف تھا ، لہذا جو باتیں قلم ا انداز کر دی تھیں وہ عربی میں بیان فرمادیں ۔لمعات میں لغوی ، نحوی مشکلات اور فقہی مسائل کو نہایت عمدہ گی سے حل کیا گیا ہے ۔علاوہ ازیں احادیث سے فقہ حنفی کی تطبیق نہایت کامیابی کے ساتھ کی گئی ہے ۔ اسی طرح دوسری تصانیف حدیث واصول پر آپکی بیش بہا معلوما ت کا خزانہ ہیں ۔

اخبار الاخیار ۔ حضرت شیخ عبدالخق محدث دہلوی کی مشہور و معروف تصنیف اخبار الاخیار میں ہند و پاک کے تقریباً تین سو اولیائے کرام و صوفیائے عظام کا مشہور و مستند تذکره ہے جس میں علماء و مشائخ کی پاکیزه زندگیوں کی دل آویز داستانیں پوری تحقیق سے لکهی گئی ہیں

ان کے علاوہ

مدارج النبوة
ما ثبت من السنة
جمع البحرین ذاد المتیقین
شرح اسماء الرجال بخاری وغیرہ

شیخ کی علمی خدمات کے ساتھ عظیم خیانت

شیخ کی علمی خدمات کا ایک شاندار پہلو یہ ہے کہ انہوں نے تقریباً نصف صدی تک فقہ وحدیث میں تطبیق کی اہم کو شش فرمائی ۔ بعض لوگوں نے اس سلسلہ میں انکی خدمات کو غلط رنگ میں پیش کیا ہے ۔

مثلا نواب صدیق حسن خاں نے لکھا :۔

 

فقیہ حنفی وعلامہ دین حنفی است ، اما بمحدث مشہور است
شیخ محقق فقہاء احناف سے تھے اور دین حنیف کے زبر دست عالم لیکن محدث مشہور ہیں۔


یعنی یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ شہرت واقعی نہ تھی ، گویا محدث ہونا اسی صورت میں متصور ہوتا ہے جب کسی امام کی تقلید کا قلادہ گردن میں نہ ہو۔

مزید لکھا : ۔

 

دستگاہش درفقہ بیشتر ازمہارت درعلوم سنت سنیہ ست ۔ولہذا جانب داری اہل رائے جانب اوگرفتہ ۔معہذا جاہا حمایت سنت صحیحہ نیز نمودہ ۔طالب علم راباید کہ درتصانیف وے ’’ خذما صفا ودع ماکدر ‘‘ پیش نظر دارد وزلات تقلید اورابر محامل نیک فرود آرد۔از سوء ظن در حق چنیں بزرگواراں خود را دور گرداند ۔
شیخ علم فقہ میں بہ نسبت علوم سنت زیادہ قدرت رکھتے تھے ، لہذا فقہاء رائے زیادہ تر انکی حمایت کرتے ہیں ، ان تمام چیزوں کے باوجود انہوں نے سنن صحیحہ کی حمایت بھی کی ہے ۔ لہذا طالب علم کو چاہیئے کہ انکی صحیح باتیں اختیار کرے اور غیر تحقیق باتوں سے پرہیز کرے ۔لیکن انکے تقلید ی مسائل کو اچھے مواقع ومحامل پر منطبق کرنا چاہیئے ۔اسے بزرگوں سے بد گمانی اچھی چیز نہیں ۔


اہل علم پر واضح ہے کہ یہ رائے انصاف ودیانت سے بہت دور اور پر تشدد خیالات کو ظاہر کرتی ہے ۔

شیخ محدث کا اصل مقصد یہ تھا کہ فقہ اسلامی کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیئے ۔ اس لئے کہ ا سکی بنیاد قرآن وحدیث پر ہے اور وہ ایک ایسی روح کی پید اوار ہے جس پر اسلامی رنگ چبڑ ہا ہوا ہے ، خاص طور پر فقہ حنفی پر یہ اعتراض کہ وہ محض قیاس اور رائے کا نام ہے بالکل بے بنیاد ہے ، ا سکی بنیاد مستحکم طور پر احادیث پر رکھی گئی ہے ۔مشکوة کا گہرا مطالعہ فقہ حنفی کی بر تریت کو ثابت کرتا ہے ۔

ایسے دور میں جبکہ مسلمانوں کا سماجی نظام نہایت تیزی سے انحطاط پذیر ہورہا تھا ۔ جب اجتہاد گمراہی پھیلانے کا دوسرا نام تھا ، جب علماء سوکی حیلہ بازیوں نے بنی اسرائیل کی حیلہ ساز فطرت کو شرمادیا تھا ، سلاطین زمانہ کے درباروں میں اور مختلف مقامات پر لوگ اپنی اپنی فکر ونظر میں الجھ کر امت کے شیرازہ کو منتشر کر رہے تھے تو ایسے وقت میں خاص طور پر کوئی عافیت کی راہ ہو سکتی تھی تو وہ تقلید ہی تھی ، اس لئے کہ :۔

مضمحل گرددچو تقویم حیات
ملت از تقلید می گیر د ثبات

رہا علم حدیث تو ا سکی اشاعت کے سلسلہ میں شیخ محقق کا تمام اہل ہند پر عظیم احسان ہے خواہ وہ مقلد ین ہوں یا غیر مقلدین ۔بلکہ غیر مقلدین جو آج کل اہل حدیث ہونے کے دعوی دا رہیں انکو تو خاص طور پر مرہون منت ہونا چاہیئے کہ سب سے پہلے علم حدیث کی ترویج واشاعت میں نمایاں کردار شیخ ہی نے اداکیا بلکہ اس فن میں اولیت کا سہرا آپ ہی کے سرہے ۔ آج کے اہل حدیث خواہ ا سکا انکار کریں لیکن انکے سرخیل مولوی عبدالرحمن مبارکپوری مقد مہ شرح ترمذی میں لکھتے ہیں ۔

 

حتی من اللہ تعالیٰ علی الہند بافاضة ہذا العلم علی بعض علمائھا ، کالشیخ عبدالحق بن سیف الدین الترک الدہلوی المتوفی سنة اثنتین وخمسین والف وامثالھم وھو اول من جاء بہ فی ھذالاقلیم وافاضہ علی سکانہ فی احسن تقویم ۔ثم تصدی لہ ولدہ الشیخ نورالحق المتوفی فی سنة ثلاث وسبعین والف ، وکذلک بعض تلامذتہ علی القلة ومن سن سنة حسنة فلہ اجرھا واجرمن عمل بھا ، کما اتفق علیہ اھل الملة ۔
یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ہندوستان پر احسان فرمایا کہ بعض علماء ہند کو اس علم سے نوازا ۔ جیسے شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی ۱۰۵۲ ھ وغیرہ ۔یہ پہلے شخص ہیں جو اس ہندوستان میں یہ علم لائے اور یہاں کے باشندگان پر اچھے طریقے سے اس علم کا فیضان کیا ۔ پھر انکے صاحبزادے شیخ نورالحق متوفی ۱۰۷۳ھ نے ا سکی خوب اشاعت فرمائی۔ اسی طرح آپکے بعض تلامذہ بھی اس میں مشغول ہوئے ۔لہذا جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا ا سکو ا سکا اجر ملے گا اور بعد کے ان لوگوں کا بھی جو اس پر عمل پیرا رہے ، جیسا کہ اہل اسلام کا اس پر اتفاق ہے۔


غرض یہ بات واضح ہو چکی کہ شیخ محقق علی الاطلاق محدث دہلوی نے علم حدیث کی نشرواشاعت کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے جس سے آج بلا اختلاف مذہب ومسلک سب مستفید ہیں ، یہ دوسری بات ہے کہ اکثر شکر گذا رہیں اور بعض کفران نعمت میں مبتلا ہیں ۔

آپکی اولاد امجاد اور تلامذہ کے بعد اس علم کی اشاعت میں نمایاں کردار ادا کرنے والے آپکے صاحبزادگان ہیں جنکی علمی خدمات نے ہندوستان کو علم حدیث کے انوار وتجلیات سے معمور کیا۔ (شیخ محدث دہلوی۔ مقدمہ اخبار الاخیار)

 


— — —

اولئك كتب في قلوبهم الايمان وايدهم بروح منه ويدخلهم جنات تجري من تحتها الانهار خالدين فيها

یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی
اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں ان میں ہمیشہ رہیں

حضرت سید ابو محمد عبد اللہ الاشتر
(المعروف) عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ

98ھ میں حضرت سید محمد نفس ذکیہ کے ہاں اسلام کے ایک درخشاں ستاری نے مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی۔ یہ تھے حضرت عبد اللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ۔ آپ حسنی حسینی سید ہیں۔ یہ بات آپ کے شجرہ مبارک سے ثابت ہے۔

شجرہ نسب:

آپ کے شجرہ مبارک پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کتنی قدیم ہستیوں میں سے ہیں۔ آپ ہیں سید ابو محمد عبداللہ الاشتر (عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ) بن سید محمد ذوالنفس الزکیہ بن سید عبداللہ المحض بن سید مثنیٰ بن سیدنا حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن حضرت سیدنا امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم۔ حضرت سیدنا حسن مثنیٰ کی شادی حضرت سیدہ فاطمہ صغریٰ بنت سیدنا حضرت امام حسین سے ہوئی اسی وجہ سے آپ حسنی حسینی سید ہیں۔

تعلیم:

تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ آپ کی تعلیم و تربیت آپ کے والد صاحب کے زیر سایہ مدینہ منورہ میں ہی ہوئی۔ آپ علم حدیث پر عبور رکھتے تھے۔ اور کچھ مورخین نے تو آپ کو محدث تک بھی لکھا ہے۔

سندھ آمد:

بنو امیہ کی حکومت زوال پذیر ہوچکی تھی جب 138ھ میں آپ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ سے علوی خلافت کی تحریک شروع کی اور اپنے بھائی حضرت ابراہیم بن عبداللہ کو اس ضمن میں بصرہ روانہ کیا اس زمانے میں سادات کے ساتھ انتہائی ظلم کا رویہ روا رکھا گیا تھا۔ اس ظلم کے کئی ایک واقعات معروف ہیں جن میں حضر ت بن ابراہیم کا واقعہ خاص طور پر مشہور ہے۔ جب آپ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ دیوار میں زندہ چن دیا گیا۔ یہ دیوار آج بھی بغداد میں مشہور ہے۔ حضرت بن ابراہیم انتہائی وجیہ اور حسین و جمیل تھے جس کی وجہ سے آپ کا لقب دیباج مشہور ہوا۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے آپ کو اپنے بھائی حضرت ابراہیم کے پاس بصرہ بھیجا اور آپ وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ کی جانب روانہ ہوئے۔ تاریخ الکامل’ جلد پنجم میں لکھا ہے کہ آپ خلیفہ منصور کے دور میں سندھ تشریف لائے۔ تحفتہ الکریم کے مصنف شیخ ابو تراب نے آپ کی سندھ میں موجودگی خلیفہ ہارون رشید کے دور سے منسوب کی ہے۔

آپ کی سندھ آمد کے ضمن میں دو قسم کے بیان تاریخ سے ثابت ہیں۔ ایک یہ کہ آپ تبلیغ اسلام کیلئے تشریف لائے تھے اور دوسرے یہ کہ آپ علوم خلافت کے نقیب کی حیثیت سے (ملاحظہ ہو تاریخ الکامل لا بن الشت’ ابن خلدون’ طبری اور میاں شاہ مانا قادری کی تحریریں) تاجر کے روپ میں آئے تھے۔ تاجر اس لئے کہا گیا کہ آپ جب سندھ آئے تو اپنے ساتھ بہت سے گھوڑے بھی لائے تھے۔ آپ نے یہ گھوڑے اپنے کم و بیش بیس مریدوں کے ہمراہ کوفہ سے خریدے تھے۔ آپ کی آمد پر یہاں کے مقامی لوگوں نے آپ کو خوش آمدید کہا اور سادات کی ایک شخصیت کواپنے درمیان پاکر بہت عزت اور احترام کا اظہار کیا۔ آپ بارہ برس تک اسلام کی تبلیغ میں سرگرداں رہے اور مقامی آبادی کے سینکڑوں لوگوں کو مشرف با اسلام کیا۔

یہ تو ہے کہانی ظاہری حالات کی جن کو تاریخ الکامل لابن الشتر اور ابن خلدون’ طبری وغیرہ میں قلمبند کیا ہوا ہے لیکن ایک عظیم ہستی جو حسنی حسینی سید ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی اولاد ہے باطنی شاہسواری سے کیسے خالی ہوسکتی تھی۔ ایک زمانہ کب سے ان کے فیض سے سیراب ہورہا ہے۔ ان کی باطنی زندگی پر ابھی کسی نے کچھ نہیں لکھا شاید اس وجہ سے کہ ان کی اپنی تحریریں یا ان کے کسی ہم عصر کی ان کے بارے میں کوئی تحریریں دستیاب نہیں ہیں اور شاید اس وجہ سے کہ وہ بہت پہلے کے اولیائے کرام میں سے ہیں اور دوسرے اس وجہ سے بھی کہ اس زمانے میں سلسلہ ہائے تصوف آج کی طرح نہیں تھی۔ تصوف کے سلسلوں کی زیادہ شہرت اور تشہیر حضرت عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اور دیگر بزرگوں کے آنے کے بعد ہوئی۔ ان کا مزار پر انوار مرجع خلائق بنا ہوا ہے یہ ویسے تو نہیں ہے ولایت تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی مرہون منت ہے۔ وہی اس کا منبع ہیں یہ کسی نے نہیں لکھا اور نہ کہا کہ وہ جو امانت حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے سینہ بسینہ چلی وہ ان کے حصہ میں نہیں آئی۔ شہادت ان کے آباؤ اجداد میں چلی آرہی ہے ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے لے کر غازی شاہ رحمتہ اللہ علیہ صاحب کے والد اور چچا شہید ہوئے۔ خود آپ نے بھی شہادت کا رتبہ پایا اپنی جان سے زیادہ کیا چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کی جاسکتی ہے یہ تو شہادت جلی ہے مگر کیا کسی نے لکھا ہے کہ وہ شہید خفی بھی ہیں؟ جب وہ حق ہوچکے تو راہ حق میں شہید ہوئے دولت سرمدی کا متحمل وہی ہوسکتا ہے جس کو فطرت اس کا اہل سمجھتی ہے۔

والد کی شہادت:

حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے سندھ قیام کے دوران گورنر سندھ کو خبر آئی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب نے مدینہ منورہ میں اور ان کے بھائی حضرت ابراہیم نے بصرہ میں عباسی خلافت کے خلاف بغاوت کردی ہے۔ 145ھ میں یہ اطلاع آئی کہ آپ کے والد حصرت سید محمد نفس ذکیہ مدینہ منورہ میں 15 رمضان المبارک کو اور اسی سال آپ کے چچا حضرت ابراہیم بن عبداللہ 25 ذیقعد (14فروری 763ء) کو بصرہ میں شہید کردیئے گئے۔

گورنر سندھ کی بیعت اور آپ کی تعظیم:

حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے والد صاحب اور چچا کی شہادت کے بعد عباسی خلافت کے مرکز (خلیفہ منصور) سے آپ کی گرفتاری کے احکامات بھی صادر ہوئے۔ مگر چونکہ آپ کے حصے میں میدان جنگ میں شہادت لکھی گئی تھی لہذا آپ کی گرفتاری تو عمل میں نہیں آسکی۔ حضرت حفص بن عمر گورنر سندھ آپ کی گرفتاری کے معاملے کو مسلسل ٹالتے رہے۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح کچھ وقت گزر جائے گا اور خلیفہ منصور غازی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے معاملے کو بھول جائے گا مگر جو لوگ اقتدار سے لگاؤ رکھتے ہیں وہ کسی طرح کا خطرہ مول نہیں لیتے بلکہ چھوٹے سے چھوٹے خطرے کو بھی برداشت کرسکتے۔ چنانچہ خلیفہ منصور کے دل سے ہرگز بھی عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کا خیال ماند نہیں پڑا۔ حالانکہ گورنر سندھ حضرت حفص بن عمر نے اہل بیت سے محبت کے جذبے کے تحت یہ بھی خلیفہ کو کہا کہ حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ میری مملکت کی حدود میں نہیں ہیں لیکن خلیفہ کو اس پر بھی اطمینان نہیں ہوا۔

ساحلی ریاست آمد:

گورنر سندھ حضرت حفص نے اپنی محبت’ عقیدت اور سادات سے لگاؤ اور بیعت کرلینے کے بعد آپ کو بحفاظت ایک ساحلی ریاست میں بھیج کر وہاں کے راجہ کا مہمان بنایا۔ یہ راجہ اسلامی حکومت کا اطاعت گزار تھا۔ اس نے آپ کی آمد پر آپ کو خوش آمدید کہا اور انتہائی عزت اور قدر و منزلت سے دیکھا۔ آپ کو چار سال یہاں ان کے مہمان رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے پہلے کی طرح اسلام کی تبلیغ جاری رکھی اور سینکڑوں لوگوں کو اسلام سے روشناس کرایا۔ لاتعداد لوگ آپ کے مریدین بن کر آپ کے ساتھ ہوگئے۔

سندھ میں اسلام کی تبلیغ:

کہاں سندھ کہاں سعودی عرب ۔ کتنی مسافت ہے۔ کتنا لمبا سفر ہے۔ صحابہ کرام کے بعد کوئی اسلام کی تعلیم دینے یا تبلیغ کرنے کیلئے سندھ نہیں آیا تھا۔ یہ بات بھی تاریخ ہی سے ثابت ہوتی ہے کہ اس کے بعد سندھیوں کے بنجر دل کی زمین میں سب سے پہلے حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ نے ہی اسلامی بیج بویا پھر اس کی آبیاری کی اور محبت’ اخوت اور بردباری سے دلوں کو گرمایا اور ایمان کی زرخیزی سے روشناس کروایا۔ اس لئے کہ جو کام ان کے ذمہ تھا وہ صرف ظاہر سے نہیں ہوسکتا تھا۔ تاریخ کو رخ عطا کرنے والے ظاہر کے ساتھ باطن کی دنیا کے شاہسوار بھی ہوتے ہیں۔ جن کا ظاہر پر کم اور باطن پر زیادہ زور اور توجہ ہوتی ہے۔

اسباب غیب:

دراصل ان ہستیوں کیلئے اس دارلعمل میں جس جگہ کا انتخاب کیا ہوتا ہے وہاں ان کیلئے اسباب بھی مہیا ہوتے ہیں۔ (گورنر سندھ حضرت عمر بن حفص کا مطیع ہونا۔ اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی گرفتاری کے خلیفہ منصور کے احکامات ٹالنا۔ آپ کو بحفاظت دوسری ریاست میں بھیجنا یہ سب غیبی اعانت تھی اور آپ کے عمل کی تائید تھی) اگرچہ عباسی خلیفہ منصور آپ سمیت تمام سادات کے قتل کے در پہ تھا اس نے اطلاع ملنے پر بارہا حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کو گرفتار کرنے کے احکامات دیئے لیکن قدرت نے جو کام آپ سے لینا تھا اس کیلئے پورا پورا اہتمام کیا ہوا تھا۔ ایک ایسا گورنر سندھ میں متعین تھا جو آپ کی تعظیم اور خیال کرتا تھا اور کسی قیمت پر آپ کو تکلیف نہ پہنچانا چاہتا تھا بلکہ ان نیک بخت گورنر یعنی عمر بن حفص نے آپ کے ہاتھ پر بیعت بھی کرلی تھی اور در پردہ آپ کی حمایت کرتا تھا۔

سیر و شکار:

تاریخ سے ثابت ہے کہ اس زمانے میں جب آپ سیر اور شکار کی غرض سے کہیں جاتے تھے تو شان و شوکت اور کروفر سے اور سازو سامان بھی ساتھ ہوتا تھا جس سے آپ کی شان و شوکت کا اظہار ہوتا تھا۔ کیوں نہ ہو حضرت عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کس نسب کے چشم و چراغ تھے۔ یہ غالباً اس لئے بھی تھا کہ آپ کی درویشی پر امارت کا پردہ بھی پڑا رہے۔ اورجو امانت آپ کے سپرد تھی آ پ کے سینے میں محفوظ و مخفی رہے۔

بھائی:

یہ بھی باور کرانا ضروری ہے کہ آپ کے علاوہ آپ کے ایک دوسرے بھائی بھی ہیں وہ بھی بہت بڑے ولی تھے۔ انہوں نے بھی اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دیں ہیں۔ آپ کا مزار مراکش میں ہے اور وہاں کا سب سے معروف مزار ہے۔ اور وہاں مرجمع’ خلائق بنا ہوا ہے۔ اس کا تذکرہ بھی تاریخ اسلام میں موجود ہے۔

حکمرانی:

حکومت دو قسم کی ہوتی ہے ایک خطہ پر اور دوسری حکومت جو حقیقی حکومت ہے وہ قلوب پر ہوتی ہے عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی حکومت ظاہر و باطن دونوں پر قائم ہے۔ سارے دفتر ان کے ہیں جہاں تمام زائرین کی مرادوں اور دعاؤں کی عرضیاں موصول کی جاتی ہیں اور پھر ان پر احکامات صادر ہوتے ہیں۔ ثبوت یہ ہے کہ اگر زائرین کی مرادیں پوری نہ ہورہی ہوں تو پھر یہ جم غفیر کیسا۔ جوہر آنے والے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ جمعرات کو تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی سیڑھیاں بھی چڑھنا دشوار ہوتا ہے۔ عام ایام میں بھی زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے ۔ عبداللہ شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کی باطنی حکومت کا حال کہاں سے معلوم ہوگا کس نے اس پر لکھا ہے کس لائبریری اور دفتر سے یہ تفصیل موصول ہوگی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث مبارک ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میرے امتی بنی اسرائیل کے نبیوں کے ہم مرتبہ ہونگے۔

یہ وہی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی امت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیلئے وقف کی ہوگی۔ یہ وہی ہیں جن کو غم امت لاحق ہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی میں انہوں نے وہی کچھ کیا ہوگا جو نبیوں نے کیا۔

وفات:

۲۰ ذی الحج ١٥١ھ میں آپ علیہ الرحمہ پردہ فرما کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ کراچی کے ساحلی علاقے کلفٹن میں آپ علیہ الرحمہ کا مزار پر انوار مرجع ہر خاص و عام ہے اور اپنی نورانیت اور برکت سے اس شہر کو خصوصا اور پورے پاکستان کو عموما اپنی رحمت میں لیے ہوئے ہے۔

غوث اعظم شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالی عنہ کے مختصر حالات
سلسلہ نسب و ولادت
قطب الاقطاب فرد الاحباب استاذ شیوخ ، عالمِ اسلام و المسلمین حضرت محی الدین ابو محمد عبدالقادر الحسنی و الحسینی رضی اللہ عنہ، نجیب الطرفین ہیں۔ والدہ ماجدہ کی طرف سے حسینی اور والد ماجد کی جانب سے حسنی تھے۔ یہ شرافت و بزرگی بہت ہی کم بانصیب لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔ والد ماجد کا نام سید ابو صالح اور والدہ ماجدہ کا اسم گرامی ام الخیر فاطمہ بنت ابو عبداللہ صومعی الحسینی تھا۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ آپ ایران کے مشہور قصبہ جیل میں یکم رمضان المبارک ٤٧٠ھ کو پیدا ہوئے۔
آپ مادر زاد ولی تھے
یہ بات نہایت ہی مشہور و معروف ہے کہ سیدنا حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، ایام رضاعت میں ماہِ رمضان المبارک میں دن کے وقت اپنی والدہ ماجدہ کا دودھ نہیں پیا کرتے تھے۔ یہ بات لوگوں میں پھیل گئی کہ فلاں شریف گھرانے میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں دن کے وقت ماں کا دودھ نہیں پیتا۔ اور روزہ سے رہتا ہے۔؛ اس سے ثابت ہوا کہ آپ مادر زاد ولی تھے ۔
ایک دفعہ لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ آپ ولی اللہ ہیں؟ فرمایا میں دس برس کا تھا کہ گھر سے مدرسے جاتے وقت دیکھا کہ فرشتے میرے ساتھ چل رہے ہیں۔ پھر مدرسہ میں پہنچنے کے بعد وہ فرشتے دوسرے بچوں سے کہتے کہ ”ولی اللہ ” کیلئے جگہ دو ، فرماتے ہیں کہ ایک دن مجھے ایک ایسا شخص نظر آیا جسے میںنے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اس نے ایک فرشتہ سے پوچھا کہ یہ کون لڑکا ہے ؟ جس کی اتنی عزت کرتے ہو؟ اس فرشتہ نے جواب دیا کہ یہ ولی اللہ ہے جو بڑے مرتبے کا مالک ہوگا۔ راہِ طریقت میں یہ وہ شخصیت ہے جسے بغیر روک ٹوک کے نعمتیں دی جارہی ہیں اور بغیر کسی حجاب کے تمکین و قرار عنایت ہو رہا ہے ۔ اور بغیر کسی حجت کے تقربِ الٰہی مل رہا ہے۔ الغرض چالیس سال کی عمر میں میں نے پہچان لیا کہ وہ پوچھنے والا شخص اپنے وقت کا ابدال تھا۔
آپ کا حلیہ شریف
آپ نحیف البدن ، میانہ قد، کشادہ سینہ لمبی چوڑی داڑھی، گندمی رنگ، ابرو پیوستہ، بلند آواز تھے۔ آپ علم کامل اور اثر کامل کے حامل تھے۔
آپ کا علم و فضل
سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، علم ظاہری اور باطنی کے ایک متبحر عالم فاضل تھے۔ ایک دن آپ کی مجلس میں ایک قاری نے قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت کی۔ آپ نے اس کی تفسیر بیان کرنی شروع کی ۔ پہلے ایک تفسیر پھر دوسری، اور پھر تیسری یہاں تک کہ حاضرین کے علم کے مطابق اس آیک کی گیارہ تفاسیر بیان فرمائیں۔یہاں تک کہ چالیس وجوہ بیان کیں ار ہر معنی اور تفسیر کی علیحدہ علیحدہ تفصیل سے سند اور دلیل اس طرح دی کہ حاضرین دم بخود رہ گئے۔
تمام علمائے عراق بلکہ دنیا کے تمام طلب گارانِ حال و قال کے آپ مرجع و وسیلہ تھے۔ دنیا کے ہر گوشہ سے آپ کے پاس فتوے آیا کرتے تھے جن پر فوراً بغیر مطالعہ کتب اور غور و فکر جواب لکھتے ۔ کسی بڑے سے بڑے حاذق فاضل عالم کو آپ کے جواب کے خلاف لکھنے یا کہنے کی طاقت نہ تھی۔
آپ کی ریاضت و عبادت
سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، کا طریقہئ سلوب بے انتہاء مشکل اور بے نظیر تھا۔ آپ کے کسی ہمعصر شیخ میں اتنی مجال نہ تھی کہ آپ جیسی ریاضت و مجاہدہ میں آپ کی ہمسری کرسکے۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ اپنے ہر عضو کو اس کی طاقت کے موافق عبادت میں سپرد کردیا کرتے تھے۔ اور قوتِ قلب کے موافق مجایئ اقداء میں روح و نفس کا ظاہراً و باطناً ذکر کیا کرتے تھے ۔ غائب و حاضر دونوں حالتوں میں نفس کی صفات کو علیحدہ کرکے نفع و نقصان اور دور ونزدیک کا فرق مٹادیا کرتے ۔ کتاب و سنت کی پیروی میں مطابقت ایسی تھی کہ آپ ہر حالت میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے اور حضور قلب کے ساتھ توحید الٰہی میں مشغول رہتے۔
آپ کے اخلاقِ کریمہ
سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، نہایت پاکیزہ اور خوش اخلاق تھے۔ آپ اپنی طاہری شان و شوکت اور وسیع علم کے بوجود کمزوروں اور ضعیفوں میں بیٹھتے ۔ فقیروں سے عاجزی کے ساتھ پیش آتے ۔ بڑوں کی عزت کرے اور چھوٹوں پر شفقت و مہربانی فرماتے ۔ سلام کرنے میں پہل کرتے اور مہمانوں اور طالب علموں کی مجلسوں میں نشست کرتے اور ان کی لغزشوں سے درگزر کرتے جو کوئی آپ کے سامنے کتنی ہی جھوتی قسم کیوں نہ کھاتا آپ اس کا یقین کرلیتے اور اپنے علم و کشف کو اس پر ظاہر نہ فرماتے۔ اپنے مہمانوں اور ہم نشستوں کے ساتھ دوسروں کی بہ نسبت بہت خوش خلقی اور کشادہ روئی سے پیش آتے ۔ سرکشوں ۔ ظالموں ۔ مال داروں اور فاسقوں اور اللہ تعالیٰ کے نافرمانوں کی تعظیم کے لئے کھڑے نہ ہوتے۔ کسی امیر و وزیر کے گھر نہ جاتے ۔ آپ کے کسی ہم عصر مشائخ کو آپ جیسا حسن خلق ۔ کشادہ سینہ ، کرمِ نفس حفاظت و امانت میں برابری کی قوت و طاقت نہ تھی۔
آپ کی مریدوں پر شفقت
مشائخین کی ایک جماعت کا بیان ہے کہ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ، نے فرمایا کہ قیامت تک میں اپنے تمام مریدوں کا ضامن ہوں کہ ان کی موت توبہ پر واقع ہوگی۔ یعنی بغیر توبہ نہ مریں گے۔ چند مشائخ نے حضور سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص آپ کے ہاتھ پر بیعت نہ کرے اور نہ ہی آپ کے ہاتھ سے خرقہ پہنا ہو ، بلکہ صرف آپ کا ارادتمند ہو اور آپ کی طرف اپنے کو منسوب کرتا ہو تو کیا اسیے شخص کو آپ کے اصحاب میں شمار کیا جاسکتا ہے؟ اور آیا ایسا شخص ان فضیلتوں میں شریک ہوگا جو آپ کے مریدوں کو حاصل ہوگی؟ حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ، نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے آپ کو میری طرف منسوب کیا اور مجھ سے ارادت و عقیدت رکھی تو اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے گا۔ اس پر اپنی رحمتیں نازل کرے گا اور اس کو توبہ کی توفیق دے گا اگرچہ اس کے طریق مکروہ ہوں۔ اور ایسے شخص کا شمار میرے مریدوں اور اصحاب میں ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم کے صدقہ وعدہ کیا ہے کہ میرے دوستوں ، میرے اہلِ مذہب، میرے راہ پر چلنے والے ،میرے مریدوں ار مجھ سے محبت کرنے والے کو جنت مرحمت فرمائے گا۔
آپ کے تعلیم کردہ نوافل
آپ رضی اللہ عنہ، فرماتے ہیں کہ جو کسی تکہلیف میںمجھ سے امداد چاہے یا مجھے آواز دے اور پکارے اس کی تکلیف دور کی جائے گی ، جو کوئی میرے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے مانگے اس کی ضرورت پوری کی جائے گی۔ اور جو کوئی دو رکعت نماز اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورہئ فاتحہ کے بعد گیارہ مرتبہ سورہئ اخلاص پڑھے اور پھر سرور عالم ا پر درود شریف پڑھے اس طرح دونوں رکعتیں ختم کرکے سلام پھیرنے کے بعد درود شریف پڑھے ۔ اور عراق کی جانب گیارہ قدم چلے اور میرا نام لے کر اپنی مراد اللہ تعالیٰ سے مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد اپنے فضل و کرم سے پوری کرے گا۔
عداوت غوث کا انجام
جو شخص حضرت پیر دستگیر غوث اعظم رضی اللہ عنہ، سے تھوڑی سی بھی عداوت رکھے گا یا ان کی ادنیٰ سی بھی بے ادبی کرے گا تو دنیا میں ذلیل و رسوا ہوگا۔ اور ذلت کی موت مرے گا۔
ایک مرتبہ آپ کا خادم ابو الفضل بزاز کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے وہ کپڑا درکار ہے جو ایک اشرفی فی گز ہو کم نہ ہو۔
بزاز نے پوچھا ، کس کے لئے خریدتے ہو؟
خادم نے جواب دیا کہ اپنے آقا سیدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، کیلئے درکار ہے۔
یہ سن کربزاز کے دل میں آیا کہ شیخ نے بادشاہ وقت کے لئے بھی کپڑا نہیں چھوڑا۔ اور بزاز کے دل میں ابھی یہ خیال پورا ہی نہیں ہوا تھا کہ غیب سے اس کے پاؤں میں ایک کیل چبھی ار ایسی چبھی کہ مرنے کے قریب ہو گیا۔ لوگوں نے پاؤں سے کیل نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن مطلب براری نہ ہوسکی۔ آخر کار لوگ بزاز کو اٹھا کر حضرت غوثِ پاک رضی اللہ عنہ، کے پاس لے گئے۔ آپ نے اسے دیکھ کر فرمایا،
اے ابو الفضل! تم نے اپنے دل میں ہم پر اعتراض کیوں کیا ۔ فرمایا مجھے اپنے معبود کی عزت کی قسم کہ اللہ جل شانہ، نے حکم دیا کہ اے عبدالقادر وہ کپڑا پہنو جس کی قیمت فی گز ایک اشرفی ہو
مزید فرمایا کہ ابو الفضل! یہ کپڑا میت کا کفن ہے ۔ اور میت کا کفن عمدہ اور نفیس ہونا چاہئے جو ہزار موت کے بعد نسیب ہوتا ہے۔ پھر آپ نے اپنا دست اقدس ابوالفضل کی تکلیف کے مقام پر رکھا ۔ آپ کے ہاتھ رکھتے ہی تکلیف اس طرح جاتی رہی گویا بالکل تھی ہی نہیں ۔ پھر اس کے بعد فرمایا ۔ ابو الفض کا اعتراض ہمارے پاس پہنچا اور کیل کی صورت میں اسکے پاس لوٹ کر جو کچھ چاہا کیا۔
حضرت غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ، کا وعظ و نصیحت
آپ کی مجلس وعظ میں چار سو اشخاص قلم دوات لئے آپ کی نصیحتیں قلمبند کرتے رہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ ابتدائی زمانہ میں سرورِ عالم ا اور سیدنا حضرت مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو میں نے خواب میں دیکھا جنہوں نے مجھے وعظ کرنے کا حکم دیا اور میرے منہ میں اپنا لعاب دہن ٹپکایا اور مجھ پر ابواب سخن کھول دیے۔
حاضرینِ وعظ
ایک شیخ کا بیان ہے کہ حضرت غوث اعظم رضی اللہ عنہ، جب وعظ کرنے کیلئے منبر پر بیٹھتے تو پہلے الحمد اللہ کہتے تاکہ اللہ تعالیٰ کا ہر ولی جو غائب ہو یا حاضر خاموش ہوجائے۔ اور پھر دوسری مرتبہ الحمد للہ کہتے اور دونوں کے درمیان تھوڑی دیر کیلئے سکوت فرماتے اس عرصہ میں فرشتے اور تمام اولیاء اللہ آپ کی مجلس میں حاضر ہوجاتے ۔ جتنے لوگ آپ کی مجلس میں دکھائی دیتے اس سے زیادہ نظر نہ آنے والے جنات ہوتے۔
آپ کے ہم عصر ایک شیخ کا بیان ہے کہ میںنے اپنی عادت کے موافق جنات کی حاضری کے لئے عزیمت پڑھی لیکن کوئی جن حاضر نہ ہوا ۔ میں بہت دیر تک عزیمت پڑھتا رہا ۔ پھر حیران ہوا کہ جنات کی حاضری کیوں نہیں ہورہی ہے؟ ان کے نہ آنے کا سبب کیا ہے؟ تھوڑی دیر بعد کچھ جن حاضر ہوئے تو میں نے ان سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، وعظ فرمارہے تھے ار ہم سب جنات وہاں حاضر تھے۔ آپ آئیندہ ہم کو اس وقت طلب کریں جب کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ، وعظ نہ فرمارہے ہوں ورنہ ہماری حاضری میں تاخیر ہوگی۔ میں نے پوچھا کیاتم لوگ حضرت شیخ کی مجلس میں وعظ مں حاضر ہوتے ہو؟ اس پر جنات نے نے جواب دیا کہ شیخ کی مجلس میں انسانوں کی نسبت ہماری تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہم جنات سے اکثر قبائل حضرت شیخ کے ہاتھ پر اسلام لائے ہیں اور توبہ و استغفار میںمشغول ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ، کی مجلس وعظ میں اولیائے عظام اور انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام بھی شریک ہوتے ہیں ار خود محبوب رب العالمین ا بھی تربیت و تائید کیلئے تشریف لایا کرتے تھے۔ اور سیدنا حضرت خضر علیہ السلام بھی شریک ہوتے۔
مواعظ کا اثر
آپ کا وعظ بڑا پر تاثیر ہوتا تھا۔ حاضرین مجلس مضطرب اور بے چین ہوجاتے اور ان پر وجد و حال کی کیفیت طاری ہو جاتی ۔ کوئی گریہ و فریاد کرتا۔ کوئی اپنے کپڑے پھاڑ کر جنگل کی طرف بھاگ جاتا۔ کوئی بے ہوش ہو کر جان دے دیتا ۔ آپ کی مجلس وعظ سے اکثر لوگوں کے جنازے نکلتے۔ جس کا سبب یہ تھا کہ وہ آپ کے ذوق و شوق، ہیبت و تصرف ، عظمت و جلال کی تاب نہ لاسکتے اور دم توڑ دیتے تھے۔ پانچ سو سے زیادہ یہودی اور عیسائی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ اور ایک لاکھ سے زیادہ ڈاکوؤں اور بدمعاشوں نے آپ کے ہاتھ پر توبہ کرکے بدکرداریوں سے باز آئے۔ اس کے علاوہ عام مخلوق کی فیض یابی کی تعداد بے انتہا ار بے شمار ہے۔
آپ کا وصال مبارک
آپ نے نوے (٩٠) سال کی عمر میں بتاریخ ١١ ربیع الآخر ٥٦١ھ مطابق ١١٨٢ء میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ نماز جنازہ میں بے شمار لوگ حاضر ہوئے۔ کثرتِ ہجوم کے باعث رات کے وقت آپ کے مدرسہ میں سائبان کے نیچے آپ کا جسم اقدس سپردِ خاک کیا گیا۔ بغداد شریف میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔
— — —
تحریر: علامہ نسیم احمد صدیقی قادری مدظلہ عالی
پیشکش: انجمن ضیائے طیبہ، کراچی ، پاکستان

مناقب سید الشہداء
حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ


بِسْمِ اللہ ِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآءٌ وَلٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ (بقرہ:١٥٤)
جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کو مردہ نہ کہو، وہ تو زندہ ہیں ، مگر تم کو خبر نہیں

یہ سید الشہداء ، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سفارش کرنے والوں کے سردار، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے مبارک چچاحضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے مناقب ہیں، جن کے موتیوں کو پرونے اور جن کی چمک دمک ظاہر کرنے کا فریضہ خاندان نبوت اور علمی خانوادے کے گوہرشب تاب مشہور”مولد نبوی” (مولود برزنجی) اور شہداء بدر کے اسماء گرامی پر مشتمل کتاب ” جالیۃ الکدر فی نظم اسماء شھداء بدر” اور دیگر مفید اور جلیل کتب کے مصنف حضرت علامہ سید جعفر بن حسن برزنجی رحمۃ اللہ علیہ نے سر انجام دیا ہے۔

یہ حضرت سید الشہداء رضی اللہ تعالی عنہ کے عظیم مناقب ہیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے جان کی بازی لگادی ، غزوہ احد میں جن کی شہادت پر ہمارے آقا ومولا اور حبیب مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم غمگین ہوئے، اس غزوہ کے اسلامی تاریخ پر گہرے اثرات مرتب ہوئے، وہ تاریخ جس کی بنیاد ان جانبازوں نے رکھی۔ یہ مناقب حضور قلب کے ساتھ متوجہ ہونے والوں کے لیے کئی اسباق اور نصیحتیں اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں۔

یہ دلکش اور روح پرور باغ ہے جس کی باد صبا حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے احوال کی خوشبو سے معطر ہے اور اس کی جودوسخا کی بارش، حضرت سید الشہداء کے ہمراہ جام شہادت نوش کرنے والے خوش بختوں کے موتیوں جیسے ناموں سے سیراب ہوتی ہے، ان حضرات نے دین مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی نصرت و حمایت میں اپنی جانوں کی بازی لگادی اور اسلام کے پھیلاؤ کا راستہ ہموار کردیا۔

میرے دل میں اس باغ کے گھنے درختوں میں داخل ہونے، اس کے حوضوں کے چشموں سے سیراب ہونے، نور کے برجوں سے موتیوں کی بارش طلب کرنے اور ان موتیوں کو مندرجہ ذیل سطور کی لڑی میں پرونے کا خیال پیدا ہوا، تاکہ انہیں حضرت سید الشہداء کے مزار مقدس کے پاس مقرر عمل (ایصال ثواب) کے بعد پڑھا جائے، خصوصاً آپ کی خصوصی زیارت (٢) کی رات جس کی روشن صبح ابر آلود نہیں ہوتی بلکہ اجلی اجلی ہوتی ہے، مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ اور باکمال بندوں کے ذکر سے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی موسلادھار بارشیں حاصل کی جائیں۔

میں کہتا ہوں کہ وہ سیدنا حمزہ ابن عبد المطلب بن ہاشم، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور رضاعی بھائی ہیں، ابو لہب کی آزاد کردہ کنیز ثوبیہ نے ان دونوں ہستیوں اور حضرت ابو سلمہ ابن عبد الاسد مخزومی (حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پہلے شوہر) کو دودھ پلایا تھا۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی عمر نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے دو سال اور ایک قول کے مطابق چار سال زیادہ تھی (٣)، ان دونوں ہستیوں کو مختلف اوقات میں (٤) دودھ پلایاگیا، حضرت سیدالشھداء اور حضرت صفیہ (نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی) کی والدہ، ھالہ بنت اھیب بن عبد مناف بن زہرہ، نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی چچا زاد بہن تھیں۔

آپ کی اولاد میں سے پانچ بیٹے تھے، چار کے نام یہ ہیں:

١۔ یعلی (٥) ٢۔عمارۃ (٦) ٣۔عمرو   اور  ٤۔ عامر

دو بیٹیاں تھیں:

١۔ ام الفضل (٧) ٢۔امامہ (٨) اس وقت حضرت سید الشھداء کی اولاد میں سے کوئی نہیں ہے (٩)

 

اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامد نا بالا سرار التی اودعتھا لدیہ


اے اللہ! ان پر رحمت و رضوان کی موسلادھار بارش ہمیشہ برسا اور جو اسرار تو نے ان کے پاس امانت رکھے ہیں، ان کے ساتھ ہماری امداد فرما۔ حضرت سید الشہداء بہادر، سخی، نرم خوش اخلاق، قریش کے دلاور جوان اور غیرت مندی میں انتہائی بلند مقام کے مالک تھے۔

بعثت کے دوسرے سال (١٠) اور ایک قول کے مطابق چھٹے سال (١١) مشرف باسلام ہوئے، اسلام لانے کے دن انہوں نے سنا کہ ابو جہل،نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں نازیبا کلمات کہہ رہا ہے تو آپ نے حرم مکہ شریف میں اس کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر کھل گیا۔ (١٢)

حضرت حمزہ نے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے گزارش کی ۔۔۔۔۔۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اپنے دین کا کھل کر پرچار کیجئے! اللہ تعالیٰ کی قسم ! مجھے دنیا بھر کی دولت بھی دے دی جائے تو میں اپنی قوم کے دین پر رہنا پسند نہیں کروں گا، ان کے اسلام لانے سے رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو تقویت حاصل ہوئی اور مشرکین آپ کی ایذا رسانی سے کسی حد تک رک گئے، بعد ازاں ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلے گئے۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے جو پہلا جھنڈا تیار کیا وہ سید الشہداء ہی کے لیے تھا (١٣)، جب ٢ھ / ٦٢٣ء میں حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قوم جھینہ کے علاقے میں سیف البحر کی طرف (ایک دستے کے ہمراہ) بھیجا، جیسے کہ مدائنی نے کہا ہے (١٤)۔

ابن ہشام نے سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے یہ اشعار نقل کیے ہیں (١٥)۔

 

فما برحوا حتی انتدبت بغارۃ
لھم حیث حلوا ابتغی راحتہ الفضل
بامر رسول اللہ اول خافق
علیہ لو لم یکن لاح من قبلی

وہ اسلام دشمنی سے باز نہیں آئے یہاں تک کہ میں ان کے ہر ٹھکانے پر حملے کے لیے آگے بڑھا، فضیلت کی راحت حاصل کرنا میرا مقصود تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر میں پہلا تلوار چلانے والا تھاجس کے سر پر جھنڈا تھا، یہ جھنڈا مجھ سے پہلے ظاہر نہ ہوا تھا۔

حضرت سید الشہداء جنگ بدر میں اس حال میں شامل ہوئے کہ انہوں نے شتر مرغ (١٦) کا پر اپنے اوپر بطور نشان لگایا ہوا تھا ، انہوں نے اس جنگ میں زبردست جانبازی کا مظاہرہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے آگے دو تلواروں (١٧) کے ساتھ لڑتے رہے،کفارکے سورماؤںکو بکھیر دیا اور مشرکین کو کاری زخم لگائے (١٨) ۔

حضرت سید الشہداء رضی اللہ تعالی عنہ جنگ احد کے دن خاکستری اونٹ اور پھاڑنے والے شیر دکھائے دیتے تھے، انہوں نے اپنی تلوار سے مشرکین کو بری طرح خوف زدہ کردیا، کوئی ان کے سامنے ٹھہرتا ہی نہ تھا۔

غزوہ احد میں آپ نے اکتیس مشرکوں کو جہنم رسید کیا، جیسا کہ امام نووی رحمۃا للہ تعالیٰ علیہ نے بیان فرمایا (١٩)، پھر آپ کا پاؤں پھسلا تو آپ تیر اندازوں کی پہاڑی کے پاس واقع وادی میں پشت کے بل گرگئے، زرہ آپ کے پیٹ سے کھل گئی، جبیر بن مطعم کے غلام وحشی بن حرب نے کچھ فاصلے سے خنجر پھینکااور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھوں آپ کو مرتبہ شہادت سے سرفراز فرمایا، یہ واقعہ ہفتے کے دن نصف شوال کو ٣ھ (٢٠) یا ٤ھ (٢١) (٦٢٤ء یا ٦٢٥ء) کو پیش آیا، اس وقت آپ کی عمر ٥٧ سال تھی۔ ایک قول کے مطابق آپ کی عمر شریف ٥٩ سال(٢٢) اور ایک دوسرے قول کے مطابق ٥٤ سال تھی۔(٢٣)

پھر مشرکین نے آپ کے اعضاء کاٹے اور پیٹ چاک کیا ، ان کی ایک عورت نے آپ کا جگر نکال کر منہ میں ڈالا اور اسے چبایا، لیکن اسے اپنے حلق سے نیچے نہ اتار سکی، ناچا ر صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے تھوک دیا۔ (٢٤)

جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا:

 

اگر یہ جگر اس کے پیٹ میں چلا جاتا تو وہ عورت آگ میں داخل نہ ہوتی، (٢٥) کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حمزہ کی اتنی عزت ہے کہ ان کے جسم کے کسی حصے کو آگ میں داخل نہیں فرمائے گا۔ (٢٦)

 

اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامد نا بالا سرار التی اودعتھا لدیہ

جب رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور آپ کے مثلہ کیے ہوئے جسم کو دیکھا، تو یہ منظر آپ کے دل اقدس کے لیے اس قدر تکلیف دہ تھا کہ اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر آپ کی نظر سے کبھی نہیں گزراتھا، اسے دیکھ کر آپ کو جلال آگیا، آپ نے فرمایا:

 

”تمھارے جیسے شخص کے ساتھ ہمیں کبھی تکلیف نہ دی جائیگی، ہم کسی ایسی جگہ کھڑے نہیں ہوئے جو ہمیں اس سے زیادہ غضب دلانے والی ہو۔”


اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

وان عاقبتم فعاقبوا بمثل ماعوقبتم بہ ولئن صبرتم لھو خیر للصابرین وما صبرک الا باللہ ولا تحزن علیھم ولا تک فی ضیق مما یمکرون ان اللہ مع الذین اتقوا والذین ھم محسنون۔ (٢٧)
ترجمہ: ”اور اگر تم سزا دو تو اتنی ہی دو جتنی تمہیں تکلیف دی گیئ اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے، آپ صبر کیجئے! اور آپ کا صبر اللہ ہی کے بھروسے پر ہے، آپ ان کے بارے میں غمگین اور تنگ دل نہ ہوں ان کے فریبوں کے سبب، بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو متقی ہیں اور ان کے ساتھ جو نیکوکار ہیں۔”

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے عرض کیا : ”اے رب ! بلکہ ہم صبر کریں گے۔”

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

 

” اے چچا! آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، کیونکہ آپ جب تک عمل کرتے رہے، بہت نیکی کرنے والے اور بہت صلہ رحمی کرنے والے تھے۔”(٢٨)


پھر ان کے جسد مبارک کو قبلہ کی جانب رکھا اور ان کے جنازے کے سامنے کھڑے ہوئے اور اس شدت سے روئے کہ قریب تھا کہ آپ پر غشی طاری ہوجاتی۔

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم فرمارہے تھے:

 

” اے اللہ تعالیٰ کے رسول کے چچا! ـــــــــــ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر!ـــــــــــ اے حمزہ! اے نیک کام کرنے والے!ـــــــــــــ اے حمزہ! مصیبتوں کے دور کرنے والے ـــــــــــــ اے حمزہ! ــــــــــــ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا دفاع کرنے والے!” (٢٩)


یہ بھی فرمایا: ہمارے پاس جبرائیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور ہمیں بتایا کہ حضرت حمزہ کے بارے میں ساتوں آسمانوں میں لکھا ہوا ہے:

 

” حمزہ ابن عبد المطلب، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر ہیں ۔” (٣٠)


حاکم نیشاپوری، مستدرک میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعا (یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کا فرمان) روایت کرتے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حضرت حمزہ ابن عبد المطلب شفاعت کرنے والوں کے سردار ہیں۔ (٣١)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

افمن وعدناہ وعدا حسنا فھو لاقیہ (٣٢)۔
(کیا جس شخص سے ہم نے اچھا وعدہ کیا ہے وہ اس سے ملاقات کرنے والا ہے۔)

سدی کہتے ہیں کہ یہ آیت حضرت حمزہ کے بارے میں نازل ہوئی۔(٣٣)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یاایتھا النفس المطمئنہ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ۔ (٣٤)
ترجمہ: ” اے اطمینان والی جان! تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ جا کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔”

سلفی کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت حمزہ ہیں۔ (٣٥)

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایسی چادر کا کفن پہنایا کہ جب اسے آپ کے سر پر پھیلاتے تو پاؤں ننگے ہوجاتے اور پاؤں پر پھیلاتے تو سر ننگا ہوجاتا، چنانچہ وہ چادر آپ کے سر پر پھیلادی گئی اور پاؤں پر اذخر (خوشبودار گھاس) ڈال دی گئی۔ (٣٦)

نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، یہی زیادہ صحیح ہے (٣٧)، یا ان کی نماز جنازہ کا نہ پڑھنا ان کی خصوصیت ہے (٣٨)۔ انہیں ایک ٹیلے پر دفن کیا، جہاں اس وقت ان کی قبر انور مشہور ہے (٣٩) اور اس پر عظیم گنبد ہے، یہ گنبد خلیفہ الناصر لدین اللہ احمد بن المستضئی العباسی کی والدہ نے ٥٩٠ ھ میں تعمیر کروایا۔

کہا جاتا ہے کہ قبر میں ان کے ساتھ حضرت عبد اللہ بن جحش (٤٠) اور حضرت مصعب بن عمیر(٤١)، بعض علماء نے کہا کہ حضرت شماس بن عثمان ہیں، آپ کے مزار شریف کے سرہانے سید حسن بن محمد بن ابی نمی کے بیٹے عقیل کی قبر ہے، مسجد کے صحن میں بعض سادات امراء کی قبریں ہیں۔

 

اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامدنا بالا سرار التی اود عتھا لدیہ


جب نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم غزوہ احد کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لائے تو انصار کی عورتوں کو اپنے شہیدوں پر روتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا:

 

”لیکن حمزہ پر کوئی رونے والیاں نہیں ہیں (٤٢)۔”


اور آپ پر گریہ طاری ہوگیا، انصار نے اپنی عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے شہیدوں سے پہلے حضرت حمزہ پر روئیں، ایک مدت تک انصار کی خواتین کا معمول یہ رہا کہ وہ جب بھی کسی میت والے گھر جاتیں تو پہلے حضرت حمزہ پر روتیں (٤٣)۔

حضرت کعب بن مالک انصاری اپنے قصیدے میں اظہار غم کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

 

ولقد ہددت لفقد حمزہ ھدۃ
ظلت بنات الجوف منھا ترعد
ولو انہ فجعت حراء بمثلہ
لرایت راسی صخرھا یتھدد
قرم تمکن من ذؤابہ ھاشم
حیث النبوۃ والندا والسؤدد
والعاقر الکوم الجلاد اذا غدت

ریح یکاد الماء منھا یجمد
والتارک القرن الکمی مجندلا
یوم الکریھۃ والقنا یتقصد
وتراہ یرفل فی الحدید کانہ

ذو لبدۃ شثن البراثن اربد
عم النبی محمد و صفیہ
ورد الحمام فطاب ذاک المورد
وافی المنیۃ معلما فی اسرۃ

نصروا النبی ومنھم المستشھد
اللھم ادم دیم الرضوان علیہ
وامد نا بالا سرار التی اود عتھا لدیہ (٤٤)

حضرت حمزہ کے رحلت فرما جانے سے مجھ پر ایسا صدمہ ہوا ہے کہ میرا دل اور جگر لرز اٹھے ہیں۔
ایسا صدمہ اگر جبل حرا کو پہنچایا جاتا تو دیکھتا کہ اس کی چٹانوں کے دونوں کنارے تھرا اٹھتے۔
وہ ہاشمی خاندان کے معزز سردار تھے جہاں نبوت، سخاوت اور سرداری ہے۔
وہ طاقتور جانوروں کے گلے کو ذبح کرنے والے تھے جب ٹھنڈی ہوا سے پانی جمنے کے قریب ہوتا تھا (یعنی سخت سردی کے موسم میں)
جنگ کے دن جب نیزے ٹوٹ رہے ہوں وہ بہادر مد مقابل کو کشتہ تیغ بنادیتے تھے۔
تو انہیں مسلح ہوکر فخر سے چلتا ہوا دیکھتا (تو کہتا کہ) وہ خاکستری رنگ والا، مضبوط پنجوں والا، ایال دار(شیر) ہے۔
وہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا اور برگزیدہ اصحاب میں سے ہیں، انہوں نے موت کے منہ میں چھلانگ لگائی تو وہ جگہ خوشگوار ہوگئی۔
انہوں نے اس حال میں موت سے ملاقات کی کہ ان پر(شتر مرغ کے پر کا) نشان لگا ہوا تھا، وہ مجاہدین کی ایسی جماعت میں تھے جس نے نبی اکرم اکی امداد کی اور ان میں سے کچھ لوگ مرتبہ شہادت پر فائز ہوگئے۔

 

اللھم ادم الدیم الرضوان علیہ
وایدنا بالاسرار التی اودعتھا لدیہ

ان کے علاوہ جن حضرات کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس دن شہادت سے نوازے گئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے اعمال صالحہ کی اچھی خبر اور زیادہ اجر دیا گیا، ان کے ناموں کی فہرست حسب ذیل ہے۔ (٤٥)

 

اے اللہ! اس روشن انوار والی بارگاہ کے صاحب (حضرت حمزہ) کے طفیل ہماری دعا ہے کہ ہم سب کو آتش جہنم کے شعلوں سے رہائی عطا فرما، کدورتیں دور فرما، ہلاکتوں سے محفوظ فرما، بکثرت بارشیں عطا فرما، اشیاء ضرورت سستی فرما، اطراف و جوانب کو امن عطا فرما، قریب و بعید اور پڑوسیوں پر رحم فرما، ارباب حکومت اور رعایا کی اصلاح فرما، اسلامی لشکروں اپنی نصرت سے تقویت عطا فرما، اپنے دشمن کافروں میں اپنے قہر کا حکم نافذ فرما اور انہیں مسلمانوں کے لیے مال غنیمت بنا۔

اے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے شیر! ہم آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ہیں، ہم امید رکھتے ہیں کہ ہم میں سے ہر شخص کی درخواست قبول کی جائیگی، ہم نے اپنی امیدوں کی کجاوے آپ کی بارگاہ میں اتارے ہیں، آپ کے دربار کرم میں حاضر ہیں، آپ کی شان یہ نہیں ہے کہ آپ ہمیں نظر انداز کر دیں، ہم نے آپ کی جود و سخا کے بھر پور برسنے والے بادلوں سے بارش طلب کی ہے۔

 

یارب قد لذنا بعم نبینا
رب المظاھر قدست اسرارہ
فا قل عثار من استجار بعمہ
او زارہ لتکفرن اوزارہ
والطف بنا فی المعضلات فاننا
بجوار من لا شک یکرم جارہ
واختم لنا باالصالحات اذ دنا
منا الحمام وانشب اظفارہ
ثم الصلاۃ علی سلالۃ ھاشم
من طاب محتدہ و طاب نجارہ
والآل والصحب الکرام اولی التقی
صید الانام ومن ھم انصارہ
ما انشدت طرباً مطوقۃ الشظی
او ناح بالالحان فیہ ھزارہ

 

اے رب کائنات! ہم نے مظہر نعمت و قدرت اپنے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے چچا کی پناہ لی ہے، انکے اسرار کو تقدس عطا کیا جائے۔
اس شخص کی لغزشوں کو معاف فرما جس نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے محترم چچا کی پناہ لی ہے یا گناہوں کی مغفرت کے لیے انکی زیارت کی ہے۔
مشکلات میں ہم پر مہربانی فرما، کیونکہ ہم اس ہستی کے جوار میں ہیں جو بلا شک و شبہ اپنے پڑوسیوں کی عزت افزائی کرتی ہے۔
جب موت ہم سے قریب ہو اور اپنے پنجے گاڑ دے تو اعمال صالحہ پر ہمارا خاتمہ فرمانا پھر صلوۃ و سلام ہو بنو ھاشم کے خلاصہ پر جنکا حسب و نسب تیب و طاہر ہے۔
اور مخلوق کے سرداروں اور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم مددگاروں، اور تقویٰ شعار آل پاک اور صحابہ کرام پر صلوٰۃ وسلام ہو۔
جب تک کسھی دار کبوتر مسرت بھرے لہجے میں چہچہاتے رہیں یا بلبل ہزاز داستان دلکش آوازوں کے ساتھ نغمہ سرا رہے۔


سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ۔وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ۔ وَالحَمدُ لِلَّہِ رَبِّ العَالِمِین

____________________________________

مآخذ ومراجع

١۔ فواد عبد الباقی: المعجم المفھرس لالفاظ القرآن الکریم
٢۔ عبد البر: الاستیعاب
٣۔ ابن الاثیر: اسد الغابۃ
٤۔ ابن سعد: الطبقات الکبری
٥۔ حاکم : المستدرک
٦۔ برھان الدین حلبی: السیرۃ الحلبیۃ (انسان العیون)
٧۔ القسطلانی: المواھب اللدنیہ
٨۔ ابن کثیر: البدایۃ والنھایۃ
٩۔ ابن الجوزی: المنتظم
١٠۔ المقریزی: امتاع الاسماع
١١۔ ابن حجر العسقلانی: الاصابہ
١٢۔ قرطبی: التذکرہ
١٣۔ابن القیم: الروح
١٤۔ابن ہشام: السیرۃ النبویۃ
١٥۔السیوطی: انباء الاذکیاء بحیاۃ الانبیائ
١٦۔ السیوطی: الحاوی للفتاوی
١٧۔ واقدی: المغازی
١٨۔ السیوطی: الخصائص الکبری
١٩۔ ابن رجب الحنبلی: اھوال القبور
٢٠۔ ابن عبد البر: التمھید
٢١۔ ابن عبد البر: البیان والتحصیل
٢٢۔ ابن النجار:الدرۃ الثمنیہ فی تاریخ المدینہ
٢٣۔ابی برکات النسفی: تفسیر النسفی
٢٤۔ابن شبہ: تاریخ المدینہ المنورہ
٢٥۔ الرازی: التفسیر الکبیر
٢٦۔ الاصبھانی: الترغیب والترھیب
٢٧۔ النووی: تہذیب الاسماء واللغات
٢٨۔ الطبری: جامع البیان فی تاویل القرآن
٢٩۔ البیھقی: حیاۃ الانبیائ
٣٠۔البیھقی : دلائل النبوۃ
٣١۔ الطبری: ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی
٣٢۔ الذھبی: ذیل تذکرۃ الحفاظ
٣٣۔ الکردی: رفع الخفا شرح ذات الشفائ
٣٤۔ ذھبی: سیر اعلام النبلائ
٣٥۔ صالحی: سبل الھدی والرشاد
٣٦۔ السجستانی: سنن ابی داود
٣٧۔ القزوینی: سنن ابی ماجہ
٣٨۔ السیوطی: شرح الصدور بشرح حال الموتی والقبور
٣٩۔ ابن العماد الحنبلی:شذرات الذھب فی اخبار من ذھب
٤٠۔ ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ
٤١۔ ابن سید الناس: عیون الاثر
٤٢۔ ابن حجر العسقلانی: فتح الباری بشرح صحیح البخاری
٤٣۔ تقی الدین السبکی: فتاوی السبکی
٤٤۔ السمھودی: وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ
٤٥۔ الشیبانی: مسند امام احمد

منقبتِ سید الشہداء حضرت سیدنا حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ

 

آپ ہیں دین کے نگہبان جناب حمزہ رضی اللہ عنہ
ہے اٹل اپنا یہ ایقان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

ناز کرتی ہے تواریخ شجاعت پہ ُہنوز
قابل رشک ہے یہ شانِ جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

جس جگہ نوش کیا جام شہادت بے خوف
ہے شفق زار وہ میدان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

انتہا ہے یہ محمدؐ سے وفاداری کی
کر گئے جان بھی قربان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

دل میں قندیل عقیدت ہی رہیگی روشن
ہے جسے آپ کا عرفان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

بن گئی شمع رسالت کے لئے اک فانوس
جب اُٹھا کُفر کا طوفان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

خواب ہی میں کبھی دیدار میّسر ہو مجھے
ہے میرے دل کا یہ ارمان جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

ماری اس زور سے بو جہل کے چہرے پہ کمان
قوت کفر تھی حیران جنابِ حمزہ رضی اللہ عنہ

بزم ہستی میں ہمیشہ ہی رہے گا چرچا
ہے یہ الطاف کا ایمان جناب حمزہ رضی اللہ عنہ


تحریر: حضرت سید جعفر بن حسن عبد الکریم برزنجی
مترجم: استاز العلماء مفتی عبد الحکیم شرف قادری

Menu